مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا
تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے (١) اور جو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے (٢) ہم نے تجھے تمام لوگوں کو پیغام پہنچانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ گواہ کافی ہے۔
رفع تناقض : (ف ١) ان دو آیتوں میں بظاہر تناقض معلوم ہوتا ہے کہ مصائب کہ من عند اللہ بھی کہا ہے اور من نفسک بھی ، مگر خدا کا کلام ہر تناقض وتعارض سے پاک ہے ، پہلی آیت سے تشادم کی تردید مقصود ہے ، دوسری سے منشا یہ ہے کہ مصائب کے ذمہ دار خود انسان ہیں ، جہاں تک کسی واقعہ کے سبب اول کا تعلق ہے وہ ظاہر ہے خدا کے سوا اور کوئی نہیں اور جہاں اسباب قریبہ کا بیان ہے ‘ واضح ہو کہ وہ انسان خود پیدا کرتا ہے یعنی گوہر مصیبت خدا کی طرف سے ہے مگر ہم حاصل اسے خود اپنے عمل سے کرتے ہیں ۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے سے تم مصیبتوں میں مبتلا ہوگئے ہو تو اس کی وجہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری نہیں ، تمہاری بدبختی اور انکار ہے ۔