سورة المرسلات - آیت 30

انطَلِقُوا إِلَىٰ ظِلٍّ ذِي ثَلَاثِ شُعَبٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

چلو تین شاخوں والے تنے کی طرف (١)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مہ شاخہ شعلے ف 1: جہاں مومنین اور مومنین اور مخلصین اللہ کے سایہ رحمت وفضل میں آسودہ ہونگے ۔ وہاں ان منکرین کے لئے کوئی جائے پناہ نہ ہوگی ۔ ان سے فرشتے کہیں گے ۔ کہ جاؤ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ اور وہی تمہارا ملجا اور ماویٰ ہے ۔ اسی کی آگ اور دھوئیں کی طرف چلو ۔ پھر اس دھوئیں کے سائے کی تین شاخیں ہونگی ۔ جو دائیں بائیں اور اوپر کی جانب پر مشتمل ہونگی اور ان میں ٹھنڈا سایہ نہ ملے گا ۔ اور نہ یہ شعلوں کے حملوں سے بچاسکیں گی ۔ اور شعلے بھی بڑے بڑے محل جیسے نکلیں گے ۔ اور کالے کالے بلند قامت اونٹوں کی طرح ہونگے ۔ اور یہ تین ظلمتیں یا دھوئیں وہ ہونگ ۔ جو ان لوگوں نے خود دنیا میں پیدا کئے ہیں ۔ یہاں یہ ممثل ہو کہ عذاب کی صورت میں ان کے سامنے ہونگے ۔ اور بس ۔ یہاں ان کو معلوم ہوے ۔ کہ انہوں نے جن جن چیزوں کی پناہ میں زندگی بسر کی ہے ۔ وہ کیا تھیں ۔ یہی غضب شہوت اور حرص غطسب کی وجہ سے انہوں نے حق وصداقت کو ٹھکرایا ۔ اہل تقویٰ کے خلاف صف آرائی کی ۔ اور قتل وغارت نگری کا شیوہ اختیار کیا ۔ شہوت کے وتھو مجبور کیا ۔ کہ سورج کے اخلاقی نظام کے بندھنوں کو توڑیں ۔ اور اخلاقی وروحانیت کی دنیا میں ابتری پھینا دیں ۔ اور حرص وآڑنے مال ودولت کی محبت کے فتنے جگائے جو رواستبداد کے ڈھنک سکھائے اور یہ بتایا *۔ کہ کیونکر دنیا کو افلاس وفقر کی لعنتوں میں پھنسایا جاسکتا ہے ۔ آج یہ غضب آگ کی شکل میں مشکل ہوکر ان کے دائیں پہلو کو داغ رہا ہے ۔ شہوت بائیں طرف کو اذیت پہنچارہی ہے ۔ اور حرص وآزدماغ پر مسلط ہے ۔ اس طرح یہ جہنم جو کچھ بھی ہے ۔ گویا ان کا اپنا کیا دھرا ہے ۔ فرمایا کہ آج مکذبین کے لئے نہایت ہی حسرت وافسوس ہے ۔ آج ان کی زبانیں مارے ندامت کے گنگ ہیں ۔ ان میں یہ استعداد ہی نہیں ۔ کہ کوئی عذر کرسکیں ۔ پھر اس بات کی اجازت بھی نہیں ہے ۔ کہ بےفائدہ عذر اور بہانے پیش کریں *۔ یہ فیصلے کا دن ہے ۔ اس میں سب لوگوں کو جمع کیا گیا ہے ۔ اور کہا گیا ہے ۔ کہ اگر ہمارے عذاب سے چھوت سکتے ہو ۔ اور تمہارا مکروفریب تمہارے کچھ کام آسکتا ہے ۔ تو آزمالو ۔ بہر آئینہ سزا مقدر ہے ۔ جو مل کر رہے گی *۔ حل لغات :۔ تطاتا ۔ اس کے معنی ہیں ۔ اصل میں جمع کرنے کے ہیں ۔ چنانچہ یہ نیک تو اس لحاظ سے کھات ہے کہ زندہ اور مردہ دونوں میں سے اس کو برابرکی ہمدردی ہے ۔ اور دونوں کے لئے یکساں ضروریات کو جمع اور مہیا کردیتی ہے ۔ اور دوسرے اس خاتمہ سے کہ دونوں نوع کے لوگ زندگی اور موت میں اس کے محتاج ہیں ۔ زندہ رہیں تو اس کی سطح پر مریں تو اس کی آغوش میں * جلسور ۔ چھنگاریاں ۔ انگارے ۔ مسقر ۔ یعنی جیسے اونٹ