فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا
پس تو اپنے رب کے حکم پر قائم رہ (١) اور ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کا کہنا نہ مان۔
ف 1: غرض یہ ہے ۔ کہ یہ منکرین محض اس لئے قرآن کی برکات اور حق وصداقت کے انوار سے محروم ہیں کہ یہ اس نقطہ کو اس تسبہ پر ترجیح دیتے ہیں ۔ جو اس سے زیادہ بیش قیمت ہے ۔ اور زیادہ واقعی ہے ان لوگوں کو دنیائے عاجل کی چمک دمک نے کچھ ایسا مبہوت کررکھا ہے ۔ کہ انکی نظریں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتیں ۔ یہ مادیت کے عارضی لذت کو حاصل حیات سمجھے ہوئے ہیں ۔ اور ان کی رائے میں جو کچھ ہے یہیں ہے ۔ اس کے اور وہاں مشکو ہے یا بعیداز عقل ۔ حالانکہ اس دنیا کا حس مٹنے کو ہے ۔ اس کاسارا نظام ضائع ہونے کو ہے ۔ اور جرم کھلنے کو ہے ۔ پھر سوائے عقبیٰ اور عالم آخرت کے کوئی چیز قطعی اور یقینی نہیں ہوئی ۔ فرمایا ۔ کیا یہ اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے ان کو پپیدا کیا ان کے جوڑ بند مضبوط کئے ہیں ۔ تو کیا محض عبث اور بیکار کیا ان کی تخلیق کے پس پردہ کوئی غرض اور مقصد کار فرمانہیں ؟ یاد رہے ۔ کہ اگر انہوں نے ہمارے پیغام کو ٹھکرایا ۔ تو جس طرح ان کو ہم نے کتم عدم سے نکالا ہے ۔ اور وجود کے شرف سے نوازا ہے ۔ اسی طرح ان کو مٹاکر ان کی جگہ دوسری قوم کو آباد کیا جاسکتا ہے ۔ یہ قرآن تذکر اور صادر نصیحت ہے ۔ جو شخص چاہے اس کی وساطت سے خدا کی راہ پر گامزن ہوجائے ۔ مگر مشکل یہ ہے ۔ کہ یہ میلان خود موقوف سے ۔ اللہ کی توفیق پر اور ان کی مشیت پر *۔ باقی اگلے صفحہ پر حل لغات :۔ شرابا طھور ۔ ایسی شراب جو اپنے اوصاف کے اعتبار سے پاکیزہ ہو ۔ جوذوق و وجدان کو بیدار کرے ۔ مگر دماغ وتغلب پر قبلہ نہ لے ۔ اور بےہودہ گوئی پرآمادہ نہ کرے * یوما ثقیلا ۔ ایک اہم دن *۔