إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ ۚ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰ ۙ وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ۚ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا ۚ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
آپ کا رب بخوبی جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ کے لوگوں کی ایک جماعت قریب دو تہائی رات کے اور آدھی رات کے اور ایک تہائی رات کے تہجد پڑھتی ہے (١) اور رات دن کا پورا اندازہ اللہ تعالیٰ کو ہی ہے، (٢) وہ خوب جانتا ہے کہ تم اسے ہرگز نہ نبھا سکو گے (٣) پس تم پر مہربانی کی (٤) لہذا جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لیے آسان ہو پڑھو وہ جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوں گے بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ تعالیٰ کا فضل یعنی روزی بھی تلاش کریں گے (٥) اور کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد بھی کریں گے ( ٦) سو تم بہ آسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو (٧) اور نماز کی پابندی کیا کرو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو اور اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو اور جو نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر سے بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤ گے (٨) اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
دین اسلام میں یسرو آسانی ہے ف 1: یعنی اسلام میں سراسریسرو آسانی ہے ۔ اس میں تعذیب نفس کے اصول کو مدار تقویٰ وزہد قرار نہیں دیا گیا ۔ اس لئے کہ عبادت کے یہ معنی نہیں ہیں ۔ کہ آپ رات بھر قرآن حکیم کی تلاوت کرتے ہیں ۔ بلکہ یہ ہیں ۔ کہ جس قدرآپ کا نفس بشاشت اور ذوق کے ساتھ قرآن پڑھ سکتا ہے پڑھے اور یہاں معلوم ہوا کہ اب ملال اور تھکن کے آثار ہیں چھوڑ دے *۔ اسلامی عبادت کا تخیل ف 2: قرآن حکیم کی تعلیمات چونکہ انسان کے ہر طبقہ کے لئے یکساں قابل عمل ہیں ۔ اس لئے اس میں طاقت ووسست کا اندازہ کرکے عبادت کا معیار ایسا مقرر کیا ہے ۔ جو ساری نوع انسانی کے لئے لائق قبول ہو ۔ اس کے نزدیک عبادت وزہد کے لئے تعذیب نفس کی ضرورت نہیں ۔ اور نہ اس کی ضرورت ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کو دو طبقوں میں تقسیم کردیا جائے ۔ ایک وہ جو دنیا اور اس کے مشاغل کو ترک کرکے اپنی جان کو ہر نعمت وآسودگی سے محروم کرکے رہبانیت تحمل اختیار کرلے ۔ اور صرف عبادت کا ہورہے ۔ اور پھر اس کے لئے عبادت کا جو کورس مقرر ہو ۔ وہ سخت ہو اور طویل وعریض ہو اور دوسرے جو دنیا کے کاروبار میں مشغول ہو اور دن رات اپنی اور بنی نوع کی خدمت میں مصروف ومنہمک رہے اس کے لئے نصاب جو ہو مختصر اور آسان ہو ۔ بلکہ یہ ریاضت اور زہد کا کورس جس کو اسلام پیش کرتا ہے ۔ ایسا ہے ۔ کہ ہر شخص کے لئے برابر برکت اور سعادت کا موجب ہے ۔ ہمیں نہ دنیا سے محرومی ہے ۔ نہ روح کو ناقابل برداشت تکلیفوں اور مصیبتوں میں مبتلا کرنے کا سوال ۔ یہ انسانوں کو دیندار اور غیر دیندار دو طبقوں میں تقسیم نہیں کرتا ۔ اس کے معیار عبادت میں سب کے لئے کسب زار کا مرقع ہے ۔ چنانچہ فرمایا کہ ہم جانتے ہیں ۔ آپ اور آپ کے پاکباز ساتھی ۔ قیام لیل کے سلسلہ میں دو تہائی رات کے قریب یا کبھی نصف اور یک تہائی رات تک تلاوت وقرآت اور قیام وسجود میں مشغول رہتے ہیں ۔ یہ بہت زیادہ ہے *۔ ہم جانتے ہیں ۔ ان لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہونگے جو مریض ہونگے ۔ اور کچھ ایسے ہونگے ۔ جو تلاش روزگار میں دن بھر مارے مارے پھرتے ہونگے اور کچھ ایسے ہونگے جن کی شجاعانہ خدمات کی میدان جہاد میں ضرورت ہوگی اس لئے آپ لوگوں کو اجازت ہے کہ ماتیسر پر اکتفا کریں ۔ اور صرف اس حد تک پڑھیں کہ طبیعت پر بار نہ ہو ۔ گویا کہ باری تعالیٰ نے بیماروں ، روزگار کے خواستگاروں اور مجاہدین کو موقع دیا ہے ۔ کہ سب حسب توفیق واستطاعت عقیدت ونیاز مندی کا اظہار کرسکیں ۔ اور عبادت کو بہرآئند ناگوار نہ سمجھیں *۔ حل لغات : ۔ کتاب علیکم ۔ تم پر اظہار عنایت کیا ہے ۔ تخفیف فرمائی ہے * مرضی ۔ مریض کی جمع ہے *۔