سورة المزمل - آیت 11

وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور مجھے اور ان جھٹلانے والے آسودہ حال لوگوں کو چھوڑ دے اور انہیں ذرا سی مہلت دے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

امراء کیوں مخالفت کرتے ہیں ! ف 1: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اپنی بعثت کا اعلان کیا ۔ تو حسب دستور جن لوگوں نے انکار کیا ۔ وہ مفلس اور قلاش لوگ نہ تھے ۔ بلکہ وہ لوگ تھے ۔ جو صاحب مال ومنال تھے ۔ اور ابتداء سے یہ سنت چلی آرہی ہے ۔ کہ حق وصداقت کی مخالفت میں بھی روسا کا طبقہ پیش پیش رہتا ہے ۔ اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے ۔ کہ غرباء کا دین سے کوئی تصادم نہیں ہوتا ۔ ان کی آرزوئیں اور خواہشیں نہایت محدود اور ادنی قسم کی ہوتی ہیں ۔ مگر یہ اکابر سیادت وقیادت کے خلاں اور منصب وجاہ کے متوالے ہوتے ہیں ۔ اور یہ بھی چاہتے ہیں ۔ کہ قانون واخلاق کی کوئی پابندی ان پر عائد نہ ہو ۔ مذہب کی پہلی لڑائی انہیں اغراض کی اصلاح کے لئے ہوتی ہے ۔ ان کی ریاست چھن جاتی ہے ۔ ان کی قیادت باقی نہیں رہتی ۔ دولت وثروت بھی خطرے میں پڑجاتی ہے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ مذہب قانون واخلاق کی مساوات کی بناء پر ان خواہشات نفس کی تکمیل نہیں ہونے دیتا ۔ اور مطالبہ کرتا ہے ۔ کہا نسانی خون اور انسانی حرمت واعزاز کے سلسلہ میں بڑے چھوٹے اور امیروغریب کا کوئی امتیازباقی نہ رکھا جائے پھر اس پر اکتفا نہیں کرتا ۔ بلکہ اپنی تربیت کے لئے ان غریبوں کو چن لیتا ہے ۔ جن کو یہ لوگ حقیر وذلیل جانتے ہیں ۔ اور پھر ان کی روحانیتوں کو اتنا مجلی کردیتا ہے ۔ کہ یہ ان لوگوں پر حکومت کرتے ہیں ۔ اس لئے فرمایا ۔ کہ اگر یہ اربات تنعم آپ کے پیغام کو نہیں مانتے ۔ اور آپ کی راہ میں مشکلات کا ایک پہاڑ حائل کرنا چاہتے ہیں ۔ تو قطعاً پرواہ نہ کریں ۔ ان کو پسند ہے مہلت دیں ۔ اس کے بعد ان کو ہمارے پاس پاجولاں ۔ کشاں کشاں آتا ہے ۔ ان کے لئے جہنم ہے ۔ اور ایسا کھانا ہے ۔ جو گلے میں پھنس کررہ جائے ۔ جہاں آگ ہے ۔ تپش ہے ۔ اور عذاب الیم ہے ۔ فرمایا کہ ان لوگوں کو اس دنیائے دوں پر ناز ہے ۔ اور یہ اس زندگی کی بھول میں ہیں ۔ حالانکہ یہ ساری بساط الٹنے کو ہے ۔ یہ زمین اپنی وسعتوں اور شاداہوں کے باوجود اللہ کے بیک ارادہ تحریک متاثر ہوکر کانپے گی ۔ اور یہ پہاڑ اپنی بلندیوں سمیت لرزیں گے ۔ اور یوں ہوجائینگے ۔ جس طرح سبالو کا شیلہ ہوتا ہے *۔ شاہد اسے غرض یہ ہے ۔ کہ قیامت کے دن اللہ کے حضور میں آپ تمہاری تکذیب اور تمہارے ایمان کی گواہی دینگے اور بتائیں گے ۔ کہ کن لوگوں نے دعوت اسلام کو قبول کیا ۔ اور اللہ کی رضا کے جو یا ہوئے ۔ اور کون محروم رہے ۔ اور اس کے سخط وغضب کا ہدف بنے *۔ حل لغات :۔ انکالا ۔ بیڑیاں * خاغصۃ ۔ جو حلق کے نیچے نہ اتر سکے * مھیلا ۔ سر سبز متعلق ازھیل بسنے ضرور بخت بیٹھا ہوا * وسیلا ۔ سخت *۔