لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا
تاکہ ان کے اپنے رب کے پیغام پہنچا دینے کا علم ہوجائے (١) اللہ تعالیٰ نے انکے آس پاس (کی چیزوں) کا احاطہ کر رکھا ہے (٢) اور ہر چیز کی گنتی کا شمار کر رکھا ہے (٣)۔
انبیا کی حدود معرفت ف 1: جہاں تک علی الاطلاق عالم الغیب ہونے کا تعلق ہے ۔ یہ خاصہ ذات خداوندی ہے ۔ اس کے سامنے کوئی بات ڈھکی چھپی یا اوجھل نہیں ہے ۔ وہ ہر چیز اور ہر بات کو اول سے جانتا ہے ۔ اور کوئی شخص اس کے سوا ایسا نہیں ۔ جو ان معنوں میں غیب بانی کا دعویٰ کرسکے ۔ ہاں بعض دفعہ مصالح رشدوہدایت کے ماتحت وہ انبیاء کو بعض غیوب پر مطلع کردیتا ہے ۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں ہیں ۔ کہ وہ ہر آن ہر بات کو اس کی پوری تفصیلات کے ساتھ جانتے ہیں ۔ آدم کو دیکھئے ۔ علم الاسماء کلھا کا تاج فرق مبارک پر رکھا ہے ۔ اور پھر تھنسی آدم کی تصریح موجود ہے ۔ حضرت نوح جلیل القدر پیغمبر ہیں ۔ مگر اللہ کی رضا کے خلاف بیٹے مغفرت کرتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) خلت کی قبائے فخر زینت بحکم ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود شرک بات کے لئے خواہش ہے ۔ کہ خدا ان کو اپنی آغوش رحمت میں لے لیں ۔ حضرت مسیح کلمۃ اللہ ہیں ۔ اور یہ نہیں جانتے کہ انجیر کے درخت میں پھل کب آتا ہے ۔ اور یونس صاحب الحوت غضب وغصہ میں یہ بھول جاتے ہیں ۔ کہ قوم کی نگرانی کتنی ضروری چیز ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھئے ۔ عبس ولولی عن جاء کا الاغمی کی فہمائش کوستنے ہیں اور چپ ہورہتے ہیں ۔ کیا یہ وہی انبیاء نہیں ہیں ۔ جن کو اللہ نے رسالت کے لئے چن لیا ہے ۔ اور جس کے متعلق تصریح ہے کہ ان کو غیب سے مشرف کیا جاتا ہے ۔ اور باوجود اس کے یہ حضرات ہیں کہ غیب کی تفصیلات سے آگاہ نہیں ۔ کیوں ؟ اس لئے نہ انسانی فطرت میں یہ نقص ہے کہ یہ اپنی محدودیت کی وجہ سے معارف الٰہیہ کے کسب حصول کی استعداد کاملا اپنے اندر نہیں رکھتی اگر یہ ممکن ہے *۔ کہ حقیر ذرہ آفتاب ہوجائے ۔ اور قطرہ سمندر وسعتیں اپنے اندر چھپالے ۔ تو پھر یہ بھی ممکن ہے ۔ کہ کوتاہ عقل وبصیرت شان خدائے ذوالجلال کے پورے علم کو حاصل کرلے ۔ یہ یاد رہے ۔ کہ اس عقیدہ میں انبیاء کی معاذ اللہ توہین نہیں ہے ۔ بلکہ علم خداوندی کی بےپناہی کا ذکر مقصود ہے ۔ اور یہ بتایا ہے ۔ کہ اسکا علم کتنا وسیع ہے ۔ اور کس درجہ ہے *۔