إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا
اگر تو انہیں چھوڑ دے گا تو (یقیناً) یہ تیرے (اور) بندوں کو (بھی) گمراہ کردیں گے اور یہ فاجروں اور ڈھیٹ کافروں ہی کو جنم دیں گے۔
(ف 1) ان آیات میں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کے زمانے میں بھی بت پرستی موجود تھی ۔ حالانکہ توحید جیسے ظاہر ونمایاں عقیدہ کے ہوتے ہوئے عقلاً اس کا کوئی احتمال نہیں معلوم ہوتا ہے اور عقل وبصیرت بالکل اس کو باور نہیں کرتی کہ انسانوں ، بتوں ، پتھروں ، درختوں اور تماثیل وہیاکل کو خدا سمجھ لیا جائے ۔ جب کہ ان سب چیزوں کو انسانی ہاتھوں نے بنایا ہے اور یا ان میں کوئی بات خرق وعجب کی نہیں ہے ۔ آخر وجہ کیا ہے کہ ابتداء سے اب تک لوگ زیادہ تر مشرک ہیں حالانکہ شرک کے حق میں کوئی وجہ معقول نہیں ہے ۔ یہ سوال اکثر دلوں میں کھٹکتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی چند وجہ ہیں ۔ (1) ہوسکتا ہے کہ لوگوں کے دل میں ابتداء یہ خیال ہو کہ خدا ان کی مادی اشکال وصورت میں متجسد ہوجاتا ہے اس لئے ان کا احترام ضروری ہے۔ (2) یہ بھی ممکن ہے کہ بعض چیزوں کی افادیت کو دیکھ کر ذہن اس طرف منتقل ہوا ہو کہ اللہ نے ان کے ذمہ کچھ خدمات لگارکھی ہیں۔ (3) ایک یہ صورت بھی ہے کہ ابتداء ہر عجیب وغریب مظاہرہ کوکم فہمی کی وجہ سے الوہیت کی کرشمہ سازی قرار دیا گیا ہو ۔ (4) وسیلہ اور ذریعہ کا خیال بھی اس کا باعث ہوسکتا ہے ۔ (5) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صلحاء کی موت ایک نسل نے ان کے مجسموں کو اور ان کی قبروں کو بطور احترام اور یادگار کے باقی رکھا ہو اور بعد میں آنے والی دوسری نسل نے پرستش شروع کردی ہو ۔ (6) اور ان چیزوں کو بطور کعبہ و قبلہ کے استعمال کیا گیا ہو اور ان کے بعد لوگوں نے اس حکمت کو نہ سمجھا ہو اور اس کی عبادت شروع کردی ہو ۔ یہ سب تاویلات ہیں جو شرک کی طرف سے پیش کی جاسکتی ہیں ۔ اسلام نے ان سب کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ خدا کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں وہ تجسد وحلول کی آلودگی سے پاک ہے ۔ تمام مظاہر کو پیدا کرنے والا ہے ۔ ذرائع اور وسائل کو اس حد تک پہنچنے کے لئے بالکل ضرورت نہیں۔ اپنے اختیارات کو وہ بانٹ نہیں دیتا ۔ وہ تنہا ساری کائنات کا مالک ہے۔ انبیاء علیہم السلام اپنی امت کے حق میں اتنے شفیق اور رحمدل ہوتے ہیں کہ حتیٰ الامکان کبھی ان کے لئے بددعا اور ہلاکت وفنا کا مطالبہ نہیں کرتے الا اس حالت میں جبکہ قوم میں نیکی کی صلاحیت بالکل مفقود ہوجائے اور اس کا زندہ رہنا خود اس کے اور آئندہ نسل کے لئے اخلاقی اور روحانی لحاظ سے مضر ہو ایسی حالت میں مناسب اور موزوں یہی ہوتا ہے کہ یہ قوم اپنے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کردے ۔ اور دوسری قوموں کو موقع دے کہ وہ فرمانبرداری اور اطاعت شعاری سے اپنی زندگی کے استحقاق کو ثابت کریں ۔ چنانچہ ٹھیک ایسے ہی حالات میں مایوس ہوکر حضرت نوح نے اللہ سے اس بدنہاد قوم کی ہلاکت کے لئے درخواست کی ۔ جنہوں نے تقریباً ایک ہزار برس تک اللہ کے پیغام کے ساتھ استہزاء کیا اور اس کے حکموں سے سرتابی کی ۔