قَالَ نُوحٌ رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا
نوح (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! ان لوگوں نے میری تو نافرمانی کی اور ایسوں کی فرمانبرداری کی جن کے مال و اولاد نے (یقیناً) نقصان ہی میں بڑھایا ہے (١)
بت پرستی کی وجہ (ف 2) حضرت نوح نے بطور فریاد فرمایا ہے کہ اے اللہ ان لوگوں کے میرے اخلاق کی پرواہ نہ کی اور ان لوگوں کے پیچھے لگے جو مال ودولت اور دنیوی اعزاز میں مشہور تھے اور جنہوں نے حق وصداقت کو مٹانے کے لئے بڑی بڑی تدبیریں اختیار کیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خود ان سرمایہ دار ان عزت وجاہ اور اولاد والوں اور ان کے ورثاء کو نقصان ہی پہنچا اور یہ لوگ سچائی کے مقابلہ میں صراحتاً گھاٹے میں رہے ۔ ان اکابر نے قوم کو یہ پٹی پڑھائی کہ دیکھو کہیں توحید کو اختیار کرکے اپنے مضبوط اور پکے عقیدے سے دست بردار نہ ہوجانا اپنے بتوں کو عزت واحترام سے رکھنا اور کسی وقت بھی ان سے عقیدت منقطع نہ کرنا۔ اس طرح ان حاملین دولت وثروت نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا اور بالآخر طوفان بادوباران کے بھینٹ چڑھ گئے اور جہنم واصل ہوئے ۔