سورة المعارج - آیت 44

خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۚ ذَٰلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہونگیں (١) ان پر ذلت چھا رہی ہوگی (٢) یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا (٣)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: اس کے بعد ارشاد فرمایا ۔ کہ یہ لوگ ہیں کسی بھول میں مشرق ومغرب کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں اور معلوم کریں کہ ہم نے کیونکر قوموں اور جماعتوں کے ساتھ سلوک روارکھا ہے ۔ ہم نے جب دیکھا ہے ۔ کہ ایک قوم ہمارے ارادہ کے مطابق نہیں ہے ۔ اور قانون فطرت اور عدل کا احترام نہیں کرتی ۔ تو اس کو فوراً فنا کے گھاٹ اتاردیا ہے ۔ اور اس کی جگہ اس سے بہتر لوگ پیدا کئے ہیں ۔ جو ہماری باتوں کا احترام کرتے ہیں ۔ اور زندگی کے اسرار سے محوم ہیں ۔ پھر جب دنیا میں ہمارا طرز عمل یہ ہے ۔ کہ بہتر اور اولیٰ لوگوں کو باقی رہنے کی ذاتی صلاحیت ہوتی ہے تو عقبے اور آخرت میں یہ کیونکر ہوگا ۔ کہ ان کافروں کو محض ان کی دولت وثروت کی وجہ سے جنت میں داخل کرلیاجائے ۔ حالانکہ زندگی اور روحانیت کے اعتبار سے یہ نہایت درجہ پست اور ذلیل ہوں *۔ ارشاد فرمایا ۔ کہ آپ ان لوگوں کو ان فضول باتوں میں خوض وتعمق کرنے دیجئے ۔ اور ان سے تعرض نہ کیجئے ۔ وہ وقت آرہا ہے جب یہ قبروں سے دوڑتے ہوئے اور لپکتے ہوئے اٹھیں گے جس طرح کہ پجاری اپنے بتوں کی طرف بسرعت دوڑتے ہیں ۔ اور کیفیت یہ ہوگی کہ آنکھیں مارے ندامت کے زمین میں گڑی ہوں گی ۔ اور چہروں پر ذلت چھارہی ہوگی ۔ اس وقت ان سے کہا جائیگا ۔ کہ یہی دن مکافات اور جزا اور سزا کا ہے ۔ اسی کے متعلق وعدہ تھا اور اسی سے تمہیں ڈرایا جاتا تھا ۔ آج دیکھ لو ۔ کہ اس میں کوئی جھوٹ نہیں ۔ یہ دن اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ موجود ہے *