أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ
کیا تو ان سے کوئی اجرت چاہتا ہے جس کے تاوان سے یہ دبے جاتے ہوں (١)
(ف 2) ﴿أَمْ تَسْأَلُهُمْ﴾ کا تعلق آیات ماسبق سے ہے ۔ مقصود یہ دریافت کرنا ہے کہ یہ لوگ ایمان کی نعمت سے آخر محروم کیوں ہیں ۔ آخر جب یہ بات طے ہے کہ اسلام انسانیت کے لئے آخری پیغام ہے اس میں تمام روحانی اور مادی مشکلات کا حل ہے اس میں نجات وسعادت ہے فلاح دارین ہے بالیدگی اور ارتقاء ہے ۔ اور جب یہ مسلم ہے کہ اس نے محض اپنی تعلیمات کی صداقت کی وجہ سے اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے کہ انسانوں کو پشتی اور حفیض سے اٹھایا ہے اور انتہائی بلندیوں تک اچھال دیا ہے ۔ عربوں کو جو جرائم پیشہ اقوام میں سے تھے تعلیم روحانیت واخلاق کا تابعدار بنادیا ہے اور دیکھتے دیکھتے علم وصنعت کے ایک عالم نو کی بنیاد رکھی ہے کہ دنیائے کفر کی آنکھیں اس کی روشنی اور چمک سے غیرہورہی ہیں ۔ ان حالات میں سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کیوں اس صداقت کو قبول نہیں کرتے اور کیوں خداونددوجہان کے سامنے نہیں جھکتے اور ان عظمتوں اور بلندیوں پر فائز نہیں ہوتے ۔ کیا ان سے مذہب کی اشاعت کے نام پر کچھ تاوان وصول کیا جاتا ہے جس کے بوجھ تلے وہ دبے ہوئے ہیں یا یہ بات ہے کہ ان کو علم غیب سے بہروافر ملا ہے جو ان کے پاس لکھ رکھا ہے ۔ بہرحال کچھ تو بتانا چاہیے کہ تامل وانکار کی وجودہ کیا ہیں ۔ حل لغات : مَغْرَمٍ۔ تاوان۔ مُثْقَلُونَ۔ گراں بار۔