يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ
جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو (سجدہ) نہ کرسکیں گے (١)
(ف 1) فرمایا ان عبادت ناآشنا لوگوں کو جب اس وقت دعوت سجود دی جائے گی جب کہ قیامت کے اہوال شدتوں پر ہوں گے تو اس وقت ان کی جبینیں قطعاً نہیں جھک سکیں گی ۔ ان کی نظریں مارے شرم وندامت کے زمین بوس ہوں گی اور ان پر ذلت وحقارت چھارہی ہوگی ۔ اس وقت ان کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں باوجود تندرستی اور صحت وتوانائی کے ذوق عبادت سے محرومی کتنا بڑا جرم تھا ۔ فرمایا یہ لوگ آج ان حقائق کو جھٹلاتے ہیں مگر بتدریج غیر محسوس طریق پر یہ لوگ جہنم کی طرف لپکے ہوئے جارہے ہیں ۔ حل لغات : يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ۔ حضرت ابن عباس سے پوچھا گیا کہ کشف عن الساق کے کیا معنی ہیں ۔ آپ نے فرمایا جو بات سمجھ میں نہ آئے اس کو اشعار عرب کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کیا کرو ۔ کیونکہ وہ عربی کے ذخائر معلومات کا بہت بڑا اور مستنددفتر ہے اس کے بعد فرمایا اس کے معنی کرب اور شدت کے ہیں ۔ اور سند میں یہ شعر پڑھا ۔ سَنَّ لَنا قَوْمُكَ ضَرْبَ الأعْناقِ وَقَامَتِ الْحَرْبُ بِنَا عَلَى سَاقِ ان معنوں میں اور بھی اشعار عربی ادب میں آئے ہیں ۔ ابوعبیدہ قیس بن زبیر کو مخاطب کرکے کہتے ہیں ۔ فَإنْ شَمَّرَتْ لَكَ عَنْ ساقِها فَوَيْهًا رَبِيعَ ولا تَسْأمِ جریر کہتا ہے : ألا رُبَّ سامِ الطَّرْفِ مِن آلِ مازِنٍ إذا شَمَّرَتْ عَنْ ساقِها الحَرْبُ شَمَّرا ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ یہ معنی یوں پیدا ہوئے کہ آدمی عموماً جب کسی امرکے درپے ہوتا ہے تو فرط اضطراب سے پنڈلیوں پر سے کپڑا اٹھا لیتا ہے ۔ اس لئے مقام شدت وکرب میں اس کا استعمال ہونے لگا اور لوگ کہنے لگے کہ ’’كَشَفَ عَنْ ساقِهِ ‘‘ ۔