سورة القلم - آیت 17

إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزما لیا (١) جس طرح ہم نے باغ والوں کو (٢) آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: ان آیات میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے ۔ کہ جو لوگ اللہ کے مال ودولت کی بنا پر احکام الٰہی کا انکار کردیتے ہیں ۔ اہیں یقین رکھنا چاہیے ۔ کہ یہ فراوانی اور آسودگی ہمیشہ نہیں رہے گی ۔ فرمایا کہ مکے والوں کہ ہم نے عیش وتکلفات سے بہرہ مند کرکے اسی طرح آزمایا ہے ۔ جس طرح کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو ہم نے مال ودولت سے نوازا ۔ ان کو ایک نہایت عمدہ باغ مرحمت فرمایا ۔ مگر انہوں نے ازراہ بخل یہ طے کرلیا ۔ کہ ہم اس کا پھل صرف آپس میں بانٹ لیں گے ۔ اس میں کسی غریب کا حصہ نہیں ہوگا ۔ پھر جو کچھ باغ کی آمدنی سے ملے گا ۔ اس کو صرف اپنی ان آسانی کے لئے استعمال کریں گے ۔ اور مستحقین کو کچھ نہیں دینگے *۔ حل لغات :۔ سنسیمہ علی الخرطوم ۔ یعنی اس کی شہرت کو خراب کردیں گے ۔ اس کی ذلت وتحقیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے اوراق میں منضبط کردیں گے * جریر کا شعر ہے ؎ نما وضعت علی النظر زوق میسی واعلی البعیث جلہ عت انف الا متظل ولایمسثنون ۔ انشاء اللہ نہ کہنا * طائف ۔ گردش ۔ عذاب * القمرتم ۔ کٹا ہوا کھیت * نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ ایکدن صیح کو جب یہ لوگ امید سے بھر پور باغ میں پہنچے ۔ تو دیکھا کہ بالکل ویران ہے ۔ اس وقت ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔ اور یہ کہنے لگے ۔ کہ اب ہم خدا کی طرف پلٹتے ہیں ۔ انشاء اللہ وہ ہم کو اس سے زیادہ بہتر باغ عنایت فرمائے گا *۔