سورة القلم - آیت 2

مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے (١)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

سورہ القلم اور جنون وخرد (ف 2) حضور (ﷺ) کے متعلق مکہ والوں کی رائے تھی کہ ان کو خلل دماغ ہے یورپ کی بعض متعصب مشنریوں نے بھی یہ کہا ہے کہ نبوت محض مرض ضرع کا دوسرا نام تھا معاذ اللہ۔ مگر قرآن حکیم فرماتا ہے کہ قلم اور تحریر کا جتنا اندوختہ اس وقت فطرت نے محفوظ رکھا ہے اور جس قدر کہ اس میں اضافہ ہوسکتا ہے اس سارے ذخیرہ ادب وعظمت کو میزان کے پلڑے میں رکھو اور اس کے بعد اس پیغام کو دوسرے پلڑے میں رکھو جس کو معاذ اللہ اس حکیم امی نے پیش فرمایا ہے جس کے متعلق موازنہ کرو اور دیکھو کہ کون شخص اتنی بڑی عقل ودانش کا مالک ہے کہ انسانی تصور میں اس کی سمانی مشکل ہے۔ قیامت تک انسانی بصیرت اس کے پیش کردہ پیغام کی برکات سے استفادہ کرتی رہے گی ۔ اور اس سرچشمہ معارف میں مکھی پیدا نہ ہوگی ۔ یہ کتنی بڑی فریب خوردگی ہے کہ ایک ایسی شخصیت جو انسانوں کی فطرت کو بدل کر رکھ دے جوایک مضبوط اور قابل قدر معاشرتی نظام پیش کرے جو ایک مستقل اور پائدار تہذیب کی تاسیس کرے اور ہزاروں حکماء اور فلسفیوں کو اپنا غلام بنا لے اس کے متعلق یہ فیصلہ ہو کہ اس کا دماغ صحیح نہیں ہے ۔ اگر باوجود ان جلائل واعمال اور اس رفعت وعظمت کے ایک شخص کا دماغ صحیح نہیں ہے تو پھر صحت دماغی کا معیار کیا ہے ۔ اور اگر یہ جنون ہے تو کیا دنیا بھرکی عقل ودانش کو اس پر قربان نہیں کیا جاسکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نوع کے افکار کا اظہار انتہائی تعصب اور بےبصیرتی کا نتیجہ ہے ورنہ جس شخص کو ادنی ترین قوت تمیزی بھی عطا ہوئی ہے وہ بھی یہی فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگا کہ محمد (ﷺ) دنیائے عقل وخرد کے سب سے بڑے انسان ہیں ۔