سورة الملك - آیت 27

فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقِيلَ هَٰذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تَدَّعُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جب یہ لوگ اس وعدے کو قریب تر پا لیں گے اس وقت ان کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے (١) اور کہہ دیا جائے گا کہ یہی ہے جسے تم طلب کرتے تھے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: قریش مکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہمیشہ ہلاکت کے طالب رہتے ۔ اور دعا کرتے کہ کہیں ان پر ہمارے دیوتاؤں کا غضب بھی نازل ہو ۔ اس کا جواب مرحمت فرمایا ہے ۔ کہ آپ ان سے کہہ دیجئے ۔ کہ میں تو موت سے خائف نہیں ہوں میں اور میری جماعت خندہ پیشانی موت کا خیر مقدم کریگی ۔ ہم کو اللہ پر پورا پورا اعتماد ہے ۔ ہمیں وہ ہلاکت وفناکا ہدف بنائے ۔ خواہ رحمت وکرم سے نوازے اور ایک عرصہ تک مزید زندہ رکھے ۔ تمہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ تم لوگوں کو اس عذاب سے جو مقدمات میں سے ہے ۔ کون بچا سکے گا جب موت تمہارے سامنے آغوش کھولے آکھڑی ہوگی ۔ اور جہنم کے شعلے تمہاری جانب ایک رہے ہوں گے ۔ اس وقت تم کو کون اپنی پناہ میں لے گا ۔ ہمارا ایمان اس خدائے رحمان پر ہے ۔ جس نے اس دنیا میں بھی دستگیری فرمائی ہے اور عاقبت میں بھی وہ اپنے فیوض سے ڈھانپ لیگا ۔ ہمارا اس پر بھروسہ ہے ۔ اور اسی کو اس سلسلہ میں لائق اعتما لکھتے ہیں ۔ مگر عنقریب جب دنیا کروٹ لیگی ۔ تو تمہیں معلوم ہوجائے گا ۔ کہ کون گمراہ ہے ۔ اور کون راہ راست پر ۔ تم اللہ کی بوقلمون نعمتوں سے صبح وشام استفادہ کرتے ہو ۔ وہ اگر تم سے یہ استعداد یہ استفادہ کو چھین لے ۔ تو بتاؤ تم کیا کرو کیا اس زندگی کے لوازم کے لئے تم سراپا اس کے محتاج نہیں ہوا *۔ حل لغات :۔ ذرائکم ۔ پھیلا دیا * رنفۃ ۔ قریب *۔