يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو (٢) اور ان پر سختی کرو (٢) ان کا ٹھکانا جہنم ہے (٣) اور وہ بہت بری جگہ ہے۔
اسلام کی زندگی کفر کی موت ہے (ف 2) کفر ایمان کے مابین ایک ازلی آویزش ہے اور جنگ ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ منکرین کے ہاتھ میں قوت واقتدار ہو اور وہ اسلام کو بخوبی گوارا کرلیں اور اس چیز کو برداشت کرلیں کہ اللہ کے بندہ علی الاعلان اس کا نام بلند کرسکیں اس کے دین کو پھیلاسکیں اور مظالم کے انسداد کے لئے منظم ہوسکیں ۔ کیونکہ اسلام کے بقاء اوراس کی اشاعت کا لا بد نتیجہ اوہام اور خرافات کی موت ہے جہل اور تعصب کی موت ہے ظلم اور سفا کی کی موت ہے باطل اور جھوٹ کی موت ہے ۔ پھر اس طرح زندگی اور موت کبھی یکجا نہیں ہوسکتے ۔ تاریکی اور روشنی میں تعاون محال ہے ۔ اسی طرح یہ ناممکن ہے کہ مسلم اور کافر بطیب خاطر متحد ہوجائیں ۔ تمدنی تعلقات کا ہونا دوسری بات ہے مگر جہاں تک کفرواسلام کی فطرت کا تعلق ہے ان کا اجتماع آگ پانی اور وخرمن کا اجتماع ہے ۔ اور جب کیفیت یہ ہو کہ کفر حق وصداقت کی راہ میں کانٹے بچھائے اور مشکلات پیدا کرے تو اس وقت فرض ہوجاتا ہے کہ کفرکی قوت اور شوکت کو ہمیشہ کے لئے کچل دیاجائے تاکہ دنیا اسلام کی برکات سے بہرہ مندی کے لئے تیار ہوجائے ۔ اس ضمن میں کسی رعایت اور مروت کا خیال نہیں رکھنا چاہیے ۔ اس لئے اس آیت میں فرمایا ہے کہ ان کفار اور منافقین کی شرارتیں حد اعتدال سے تجاوز کرگئی ہیں اس لئے آپ ان سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے ۔ مدعا یہ ہے کہ کفار کو تلوار سے رو کیے اور منافقین کو دلیلوں اور حدود قائم کرنے سے ۔ حل لغات : جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ۔ اسمیں فقط جہاد کے دو معنی ہیں ۔ کفار کے مقابلہ میں بالسیف اور منافقین کے مقابلہ میں باللسان ۔