وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ
اور یاد کرو کہ جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی (١) پس جب اس نے اس بات کی خبر کردی (٢) اور اللہ نے اپنے نبی پر آگاہ کردیا تو نبی نے تھوڑی سی بات تو بتا دی اور تھوڑی سی ٹال گئے (٣) پھر جب نبی نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی اس کی خبر آپ کو کس نے دی (٤) کہا سب جاننے والے پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے یہ بتلایا ہے (٥)۔
حل لغات : عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ۔ یعنی انتہائی عالم غضب میں بھی حضور (ﷺ) نے امت کے لئے یہ مبارک اسوہ چھوڑا ہے کہ جس شخص سے ناراضی ہو اور یہ جتانا مقصود ہو کہ ہم ناراض ہیں اس کے لئے صرف یہ کافی ہے کہ نفس واقعہ کی طرف اشارہ کردیا جائے ۔ کیونکہ زیادہ تصریح سے بعض دفعہ ملال بڑھتا ہے اور ندامت کا احساس نہیں ہوتا ہے غرض یہ ہوتی ہے کہ سننے والا اپنے کئے پرپشیمان ہو۔ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۔ تمہارے دلوں میں کجی پیدا ہوگئی ہے۔