سورة المنافقون - آیت 6

سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ان کے حق میں آپکا استغفار کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہیں (١) اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز نہ بخشے گا (٢) بیشک اللہ تعالیٰ (ایسے) نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا،

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: منافقین کی بدبختی اور شقاوت کی ھدیہ ہے ۔ کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ کم بختو ! حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طبیعت کے بہت نرم ہیں ۔ اور دل سے چاہتے ہیں کہ تم لوگ تائب ہوجاؤ۔ اور زمرۃ منافقین سے نکل آؤ۔ وہ تمہارے لئے بخشش کی دعا کرینگے ۔ تم آؤ اور دربار نبوی سے نجات کا پروانہ حاصل کرلو ۔ مگر یہ لوگ بکمال مروی اور نخوت منہ پھیر کر اغراض کرتے ہیں ۔ فرمایا کہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ لوگ جب تک منافق رہیں گے ۔ ان کی بخشش نہیں ہوسکتی ۔ آپ کا تجسس کا مانگنا یا نہ مانگنا برابر ہے ۔ کیونکہ ان کے دلوں میں فسق وفجور کی خباثت موجود ہونے کی وجہ سے ان کو علام غیوب خدا نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمتہ للعالمین کو ان کے ایمان لانے سے ناامید کیا ہے *۔ حل لغات :۔ فطبع علی قلوبھم ۔ یعنی ایمان کے بعد کفر امتیاز کرنے پر ان کے دلوں پر مہر کردی گئی ۔ اور اس صلاحیت کو چھین لیا گیا جو وجہ استہزاز ہوتی ہے * اجسامھم ان کے ظاہری جسم ان کے قدواقامت * صیحۃ ۔ چیخ ۔ آواز *۔