سورة الجمعة - آیت 2

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں (١) میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

نبوت کے متعلق چند نکات ف 1: اس آیت میں منصب نبوت کے متعلق چند نہایت ہی بیش قیمت نکات کی توضیح فرمائی ہے ۔ اور بیان کیا ہے ۔ کہ رسالت کے مفہوم اور تخیل کو کون کون چیزیں لازم ہیں * اسلام سے قبل مذاہب میں عام غلطی یہ تھی ۔ کہ وہ نبوت اور رسالت کے صحیح صحیح مفہوم سے آگاہ نہیں تھے ۔ یہودی اور عیسائی تجسم کے قائل تھے ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ خدا متجسد ہوکر نزول فرماتا ہے ۔ تاکہ انسان کے لئے رشدوہدایت کا پیکر ہوسکے ۔ اور قریب قریب غیر حالی دنیا بھی الہام وبعثت کے مفہوم سے نآشنا تھی ۔ اور اس کے ہاں بھی حلال اور تجسم ہی ایک ذریعہ تھا ۔ جس کی وساطت سے خدا اپنے بندوں سے ہمکلام ہوسکتا ہے ۔ اسلام نے سب سے پہلے اس تخیل کی تردید فرمائی اور بتایا ۔ کہ نبوت کے معنے الوہیت کے نہیں ہیں ۔ بلکہ نبی نام وے ایک ایسے انسان کا جس کو اللہ تعالیٰ اپنی ہم کلامی سے مشرف فرماتے ہیں ۔ اور انسانوں کی راہنمائی کے لئے منتخب کرکے بھیجتے ہیں ۔ اس مفہوم کو ھوالذی تبت کے الفاظ سے واضح کیا ہے ۔ کہ خدا زمین پر نہیں آیا ہے ۔ بلکہ خدا نے زمین پر ایک نہایت ہی مکرم بندے کو مبعوث فرمایا ہے ۔ بعثت کے لفظ سے ایک اور ہی باریک شبہ کا ازالہ ہوجاتا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ بعض کے نزدیک یہ وحی والہام کی ضیا کی نفسیات اصلاح کے باہر کہیں آیا نہیں ہے ۔ بلکہ یہی ذہنی کیفیتیں جب کسی شئے پرچھا جاتی ہیں ۔ تو اس کو اپنی نبوت اور رسالت کا یقین ہونے لگتا ہے اور وہ سمجھتا ہے ۔ کہ سچ مچ محمد کو اللہ تعالیٰ نے مصلح اور ہادی بنا کر بھیجا ہے ۔ اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے ۔ یہ یہ شبہ اللہ کے علم میں تھا ۔ اس لئے پیغمبر کے لئے بعثت اور ارسال ایسے الفاظ کو عمداً تجویز فرمایا ہے ۔ تاکہ معلوم ہو ۔ کہ یہ اس کی طرف سے مبعوث ہوکر آئے ہیں ۔ اس نے ان کو بھیجا ہے ۔ اور الہام ووحی دماغی کدہ کاوش کا نتیجہ نہیں ہے ۔ بلکہ محض آسمانی فیض اور ملوہیت ہے *۔ منھم کے لفظ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ کہ پیغمبر جب آتے ہیں ۔ قوم کے رجحانات اور امیال وعواطف کے حامل ہوگئے ہیں ۔ ویزکیھم سے یہ بات ثابت کرنا مطلوب ہے ۔ کہ پیغمبر کا کام محض وعظ اور ارشاد نہیں بحث اور مناظرہ نہیں ۔ کتابیں لکھنا اور مباہلہ کرنا نہیں ہے ۔ بلکہ ان سب چیزوں کے ساتھ تزکیہ کرنا بھی ہے ۔ یعنی دلوں میں پاکیزگی اور تقویٰ کے جذبات پیدا کرنا نبوت کے فرائض میں داخل ہے ۔ اس لفظ سے اس غلط فہمی کا بھی کامل طور پر ازالہ ہوجاتا ہے ۔ کہ آیا اسلامی نقطہ نگاہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہیں ۔ یا نہیں ۔ دراصل یہ شبہ عیسائی مشنریوں نے پھیلایا ہے ۔ اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے صرف معصوم ہونا تو کوئی خاص بات ہی نہیں ۔ بلکہ آپ کا منصب اس سے کہیں بلند ہے ۔ آپ تو انسانوں کو معصوم بناتے ہیں ۔ اور تزکیہ وتطہیر سے دلوں کی دنیا کو پاک بتاتے ہیں ۔ گویا کہ آپ معصوم گر ہیں ۔ اس لئے آپ کے متعلق ایسا سوال ہی سرے سے مہمل اور بےمعنی ہے ۔ جو شخص اطبائے روحانی کا سب سے بڑا معلم ہو ۔ اس کے متعلق یہ پوچھنا ۔ کہ وہ خودبھی طبیب ہے یا نہیں ۔ نادانی نہیں تو کیا ہے ؟ حل لغات : الملک ۔ شہنشاہ اقلیم وکون * القدوس ۔ نہایت پاک اور مبارک * العزیز ۔ صاحب قوت وغلبہ *۔ حل لغات :۔ الامبین ۔ بےپڑھے لوگ * حملوا ۔ ان پر ذمہ داری نہ ڈالی * اسفاق ۔ سفر کی جمع ہے ۔ بمعنی کتابیں * فطلوا الموت ۔ سو تم موت کی تمنا کرو ۔ یعنی بصورت سلسلہ *۔