هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں (١) میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
نبوت کے متعلق چند نکات (ف 1) اس آیت میں منصب نبوت کے متعلق چند نہایت ہی بیش قیمت نکات کی توضیح فرمائی ہے اور بیان کیا ہے کہ رسالت کے مفہوم اور تخیل کو کون کون چیزیں لازم ہیں۔ اسلام سے قبل مذاہب میں عام غلطی یہ تھی کہ وہ نبوت اور رسالت کے صحیح صحیح مفہوم سے آگاہ نہیں تھے ۔ یہودی اور عیسائی تجسم کے قائل تھے ان کا عقیدہ تھا کہ خدا متجسد ہوکر نزول فرماتا ہے تاکہ انسان کے لئے رشدوہدایت کا پیکر ہوسکے اور قریب قریب غیر سامی دنیا بھی الہام وبعثت کے مفہوم سے نآشنا تھی ۔ اور اس کے ہاں بھی حلول اور تجسم ہی ایک ذریعہ تھا ۔ جس کی وساطت سے خدا اپنے بندوں سے ہمکلام ہوسکتا ہے ۔ اسلام نے سب سے پہلے اس تخیل کی تردید فرمائی اور بتایا کہ نبوت کے معنی الوہیت کے نہیں ہیں بلکہ نبی نام ہے ایک ایسے انسان کا جس کو اللہ تعالیٰ اپنی ہم کلامی سے مشرف فرماتے ہیں اور انسانوں کی راہنمائی کے لئے منتخب کرکے بھیجتے ہیں ۔ اس مفہوم کو ﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ﴾کے الفاظ سے واضح کیا ہے کہ خدا زمین پر نہیں آیا ہے بلکہ خدا نے زمین پر ایک نہایت ہی مکرم بندے کو مبعوث فرمایا ہے ۔ بعثت کے لفظ سے ایک اور بھی باریک شبہ کا ازالہ ہوجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض کے نزدیک یہ وحی والہام کی دنیا کچھ اور نہیں بلکہ یہ ذہنی کیفیتیں ہیں جب کسی شئے پرچھا جاتی ہیں تو اس کو اپنی نبوت اور رسالت کا یقین ہونے لگتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ سچ مچ محمد کو اللہ تعالیٰ نے مصلح اور ہادی بنا کر بھیجا ہے ۔ اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے یہ شبہ اللہ کے علم میں تھا اس لئے پیغمبر کے لئے بعثت اور ارسال ایسے الفاظ کو عمداً تجویز فرمایا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ اس کی طرف سے مبعوث ہوکر آئے ہیں اس نے ان کو بھیجا ہے اور الہام ووحی دماغی کدو کاش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض آسمانی فیض اور موہبت ہے ۔ مِنْهُمْکے لفظ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ پیغمبر جب آتے ہیں قوم کے رجحانات اور امیال وعواطف کے حامل ہوگئے ہیں ۔ وَيُزَكِّيهِمْ سے یہ بات ثابت کرنا مطلوب ہے کہ پیغمبر کا کام محض وعظ اور ارشاد نہیں، بحث اور مناظرہ نہیں ، کتابیں لکھنا اور مباہلہ کرنا نہیں ہے بلکہ ان سب چیزوں کے ساتھ تزکیہ کرنا بھی ہے ۔ یعنی دلوں میں پاکیزگی اور تقویٰ کے جذبات پیدا کرنا نبوت کے فرائض میں داخل ہے ۔ اس لفظ سے اس غلط فہمی کا بھی کامل طور پر ازالہ ہوجاتا ہے کہ آیا اسلامی نقطہ نگاہ سے حضور (ﷺ) معصوم ہیں یا نہیں ۔ دراصل یہ شبہ عیسائی مشنریوں نے پھیلایا ہے اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور (ﷺ) کے لئے صرف معصوم ہونا تو کوئی خاص بات ہی نہیں بلکہ آپ کا منصب اس سے کہیں بلند ہے آپ تو انسانوں کو معصوم بناتے ہیں اور تزکیہ وتطہیر سے دلوں کی دنیا کو پاک بناتے ہیں ۔ گویا کہ آپ معصوم گر ہیں ۔ اس لئے آپ کے متعلق ایسا سوال ہی سرے سے مہمل اور بےمعنی ہے ۔ جو شخص اطبائے روحانی کا سب سے بڑا معلم ہو اس کے متعلق یہ پوچھنا کہ وہ خودبھی طبیب ہے یا نہیں نادانی نہیں تو کیا ہے ؟ حل لغات: الْأُمِّيِّينَ۔ بےپڑھے لوگ۔