يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو (١) دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا تو اللہ ہی ہے لیکن اگر وہ تمہیں ایماندار معلوم ہوں (٢) تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، یہ ان کے لئے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لئے حلال ہیں (٣) اور جو خرچ ان کافروں کا ہوا ہو وہ انہیں ادا کردو (٤) ان عورتوں کو ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں (٥) اور کافر عورتوں کے ناموس اپنے قبضے میں نہ رکھو ( ٦) اور جو کچھ تم نے خرچ کیا ہو (٧) وہ بھی مانگ لیں اور جو کچھ ان کافروں نے خرچ کیا ہو (٨) وہ بھی مانگ لیں یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو تمہارے درمیان کر رہا ہے (٩) اللہ تعالیٰ بڑے علم (اور) حکمت والا ہے۔
عورتوں کے متعلق چند ضروری احکام ف 1: ایک مغنیہ عورت سارہ کی وجہ سے چوکہ حاطب بن ابی طبقہ والی سازش بروئے کار آئی تھی ۔ اور خطرہ تھا ۔ کہ اسی طرح دوسری عورتیں داد الاسلام میں آکر کہیں جاسوسی کے فرائض انجام نہ دیں ۔ اس لئے یہ آیات نازل ہوئیں ۔ کہ جب بظاہر مومن عورتیں مدینہ ہجرت کرکے آئیں ۔ تو انہیں خوب اچھی طرح جانچ لینا چاہیے ۔ کہ ان کی آمد کا مقصد کیا ہے ۔ کیا وہ اپنے خاوند سے روٹھ کر آئی ہیں یا مدینہ کی زیارت کا شوق انکو کھینچ لایا ہے ۔ یا کوئی اور جذبہ ہے ۔ جن سے ان کو یہاں آنے پر مجبور کردیا گیا ہے ۔ جب تک یہ صاف طور پر حلفیہ نہ کہہ دیں ۔ کہ ہم محض اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں یہاں آئی ہیں ۔ اور ہمارا مقصد ہجرت سے محض دین کی حفاظت وحباتت ہے ۔ اس وقت تک ان کو یہاں قیام کی اجازت نہ دیجائے ۔ فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی حقیقت سے خوب آگاہ ہے ۔ اس لئے یہ اس کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کریں ۔ اس کے بعد فرمایا ۔ کہ اگر ثابت ہوجائے کہ یہ عورتیں مسلمان ہیں ۔ تو پھر صلح حدیبیہ کے عہد کی وجہ سے ان کو واپس دارلکفر میں بھیج دو ۔ کہ یہ اس معاہدہ سے اصولاً مستثنیٰ ہیں ۔ وہ معاہدہ صرف مردوں کے لئے ہے ۔ جو اپنے عقیدہ کی پوری طرح حفاظت کرسکتے ہیں ۔ اور جن میں مصائب کے وقت ثابت قدم رہنے کی صلاحیت ہے ۔ یہ طبقہ جو زادہ عزم کے لحاظ سے بالکل کمزور ہے ۔ اس قابل نہیں ہے کہ بالکل کفر میں گھر جائے ۔ اور پھر اپنے ایمان کو بچا لیا جائے الا ماشاء اللہ اس لئے قانون یہ ہے ۔ کہ عورتوں کو دارالکفر میں نہ بھیجا جائے اور منکرین کو موقع نہ دیا جائے ۔ کہ وہ ان کو آزمائش میں مبتلا کردیں ۔ یہ عورتیں کافروں کے نکل میں نہیں رہ سکتیں اور نہ کافر اس کے مجاز ہیں ۔ کہ ان سے شادی کریں ۔ کفار سے معاہدہ کی صورت میں وہ عورتیں جو دارالکفر سے ہجرت کرکے دارالاسلام میں آجائیں اور مسلمان مردوں سے نکاح کرنا چاہیں ۔ ضروری ہے کہ ان کے مہر کفار کو ادا کردیئے جائیں ۔ تاکہ قانون عدہ کا احترام باقی رہے ۔ اور یہ بہرحال ضروری ہے ۔ کہ مسلمان مردوں کا مشرک عورتوں کے ساتھ کوئی جنسی رشتہ باقی نہ رہے ۔ کیونکہ نکاح کا تعلق صرف جذبات جنسکے ماتحت نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک ایسا پاک معاہدہ ہے ۔ کہ ساری زندگی کا اس دارومدار ہے ۔ نکاح کے معنے یہ ہیں ۔ کہ میاں بیوی میں خیال وفکر سے لے کر عمل وجوارح تک پوری ہم آہنگی ہو ۔ اور اس صورت میں جب کہ ان میں ایک مشرک ہو ۔ یہ ہم آہنگی ختم ہوجاتی ہے ۔ اور اس کا اثر نہ صرف ازدواجی زندگی پر پڑتا ہے ۔ بلکہ اولاد جو پیدا ہوتی ہے ۔ ان کا عقیدہ اور ایمان مستحکم نہیں ہوتا ۔ کیونکہ یہ تو ممکن ہے ۔ کہ میاں بیوی اس منافقت کو کسی نہ کسی صورت میں نباہ لے جائیں ۔ مگر ایسے میاں بیوی مضبوط کیرکٹر کی اولاد پیدا نہیں کرسکتے ۔ یہ نہیں ہوسکتا ۔ کہ ان کی آغوش میں ملی ہوئی اولاد ایمان کی نمت سے بہرہ ور ہو ۔ اس لئے یہ رشتہ اسلامی نقطہ نگاہ سے ناجائز ہے ۔ ہاں جب تم ان کو چھوڑنے لگو ۔ تو حسب ومستور منکرین سے جن کے نکاح میں وہ عورتیں جانے لگیں ۔ تم اپنا خرچہ مانگ لو *۔ حل لغات :۔ فامتحینوھن ۔ ان کی جانچ کرلو ۔ تو سم ان کا امتحان کرلیا کرو * اجورھن ۔ مہر * بعصم الکوافر عصمۃ ۔ یعنی عقد عصمت کو برقرار نہ رکھو *۔