فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَا أَنَّهُمَا فِي النَّارِ خَالِدَيْنِ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ
پس دونوں کا انجام یہ ہوا کہ آتش (دوزخ) میں ہمیشہ کے لئے گئے اور ظالموں کی یہی سزا ہے (١)
دنیا کی جمال آرائیاں ف 1: غرض یہ ہے ۔ کہ اصل زندگی دنیائے دوں کی یہ عارضی اور ظاہری زندگی نہیں ہے ۔ بلکہ باوجود اس کی جازبیتوں اور جمال آرائیوں کے یہ تمہید ہے ۔ ایک دوسرے دور حیاتکی ۔ اور یہ مقدمہ ہے ۔ پیش آئند کتاب زندگی کا اس لئے تقویٰ اور دینداری کا تقاضا یہ ہے ۔ کہ سالک اس کو منزل نہ قرار دے لے ۔ اور اس کو اپنا نصب العین نہ قراردے لے ، بلکہ اپنے طرز عمل سے ثابت کرے ۔ کہ یہ کوچ کا مقام ہے ۔ اور جہاں جانا ہے ۔ وہ جگہ آگے ہے ۔ یہاں رہ کو آدمی یہ سوچے ۔ کہ اس مستقبل کے لئے اس عالم دائمی کے لئے ہم نے کیا کیا ہے ۔ کس قدر تیاری اور اہتمام سے کام لیا ہے ۔ مادراہ بھی موجود ہے ۔ یا نہیں ۔ پھر اس محبوب اذلی کے لئے کوئی چیزاز قبیل نذرانہ بھی ساتھ ہے یا نہیں ۔ یہ سب چیزیں ایسی ہیں ۔ جن پر یہاں غور کرنا لازم ہے ۔ جن کے متعلق یہاں سوچنا ضروری ہے ۔ کیونکہ موت کے ہم اس منزل میں قدم رکھتے ہیں ۔ جہاں سے پھر واپسی ناممکن ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے بعد صرف وہ اعمال کام آتے ہیں جو ہم نے موت سے پہلے کئے ہوں ۔ اسی لئے قرآن فرماتا ہے ۔ کہ مسلمانو ! اپنے دلوں میں تقوی اور خشیت الٰہی کے جذبات ابھی سے پیدا کرو ۔ اور اس کی صورت یہ ہے ۔ کہ نظر احتساب ہمیشہ آئندہ پر رہے ۔ ہر دم اور ہر نفس یہ سوچتے رہو ۔ کہ کل کے لئے کتنی پونجی ہے ۔ خود فراموشی میں ان لوگوں کی مانند نہ ہوجاؤ۔ جنہوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کو بھلا دیا ۔ اور اس کی تعلیمات کو کمال غفلت سے پس پشت ڈال دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے بھی ان پر سے اپنی رحمتوں اور عنایتوں کے دست فیض اثر کو اٹھالیا ۔ یاد رکھو ۔ یہ لوگ فاسق تھے ۔ ان کا تتبع نہ کرنا ۔ اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری میں اس درجہ غفلت شعاری اختیار کرنا *۔