سورة الحشر - آیت 7

مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

سنت ذخیرہ خیروبرکت ہے (ف 1) یہ آیت سیاق وسباق کے لحاظ سے تواموال غنیمت کی تقسیم کے متعلق ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ حضور (ﷺ) جس شخص کو جس قدر ازراہ انصاف وعدل دیتے ہیں اس کو بلا تکلف اور بغیر اعتراض کے قبول کرلینا چاہیے ۔ اور جس کو محروم رکھتے ہیں اسے اپنی محرومی پر قانع رہنا چاہیے اور حرف شکایت لبوں تک نہیں لانا چاہیے ۔ کیونکہ پیغمبر (ﷺ) کے عدل وانصاف پر اعتماد نہ کرنا تقویٰ کے منافی ہے ۔ نور ایمان کا فقدان وضیاع ہے ۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ اس خصوصی معنی کی وجہ سے آیت میں تقسیم باقی نہ رہے ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آیت میں اصالۃ عموم ہی ہے اور خصوص ضمنا خود بخود اس میں آجاتا ہے ۔ آیت کے معنی یہ ہیں کہ رسول (ﷺ) کی شخصیت تمہیں جو احکام ونواہی سناتی ہے اس کو قبول کرو ۔ اور اس کے سامنے کسی نوع کے کبرنفس کا اظہار نہ کرو کہ یہ پاکیزگی قلب کو ضائع کردینے کے مترادف ہے ۔ گویا حضور (ﷺ) اس منصب پر ہیں کہ وہ مطاع ہیں ان کی اطاعت اللہ نے لازم قراردی ہے وہ جو کچھ سیرت وکردار کا ذخیر چھوڑ جائیں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ اسے خیروبرکت سمجھ کر قبول کرلیں ورنہ شدید ترین عذاب کے لئے تیار رہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ جن لوگوں نے سنت کی محبت سے انکار کیا ہے اور اپنے زعم میں اختلافات سے بچنے کے لئے صرف قرآن سے تمسک کیا ہے اور وہ بھی قرآن کے اس حصے سے جس میں اسی کی کفایت وتفصیل کا ذکر ہے ۔ وہ اطاعت رسول کی محرومی کی وجہ سے اس دنیا میں عظیم ترین اور شدید ترین عذاب میں مبتلا ہوگئے ۔ اور وہ عذاب اختلاف وتفرقہ کا عذاب ہے ۔ ان کا ہر سمجھدار آدمی بجائے خود ایک مذہب کا امام اور مجتہدبن گیا اور چاہنے لگا کہ لوگ اس کے متبع ہوجائیں ’’ فرَّ من المطر وقام تحت المیزاب ‘‘ کی کتنی عمدہ مثال ہے ۔ یہ لوگ اتنی واضح اور نمایاں حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ قرآن کو اس کے اولین حامل کی وساطت کے بغیر سمجھنا اتنا ہی مشکل ہے جس قدر خدا تک بغیر عقل وفہم کے رسائی حاصل کرنا ۔