سورة الحشر - آیت 2

هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر کے وقت نکالا (١) تمہارا گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ خود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کے (سنگین) قعلے انہیں اللہ (عذاب) سے بچا لیں گے (٢) پس ان پر اللہ کا عذاب ایسی جگہ سے آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا (٣) اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا (٤) اور وہ اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے تھے (٥) اور مسلمان کے ہاتھوں (برباد کروا رہے تھے) ( ٦) پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو۔ (٧)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سورۃ الحشر ف 1: اس سورت میں اولاً یہ بتایا ہے ۔ کہ بنی نضیر جن کے پاس مضبوط قلعے تھے ۔ اور جو ہر طرح سامان جنگ سے مسلح تھے ۔ جب انہوں نے اسلام کی دشمنی میں ابوسفیان سے معاہدہ کیا ۔ اور پہلے عہد کو توڑا ۔ تو کیونکر اللہ نے ان کو ذلیل کیا ۔ اور کس طرح ان سب کو ذلیل کیا ۔ اور کس طرح ان سب کو جلاوطنی پر مجور کردیا ۔ اس کے بعد دوسرے مباحث کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے غلبہ واقتدار زقیل مقدارات سے * مقام عبرت یہودی مالدار بھی تھے ۔ اور محفوظ قلعوں میں پناہ گزین بھی ۔ مگر جب عساکر اسلامی نے محاصرہ کیا ۔ اور لڑائی کے لئے للکارا ۔ تو ان کی ہمتیں پست ہوگئیں ۔ اللہ تعالیٰ کچھ ایسا رعب ڈالا ۔ کہ تاب مقادست نہ لاسکے ۔ اور قلعہ بندہوکر بیٹھ رہے ۔ اور جب دیکھا ۔ کہ مخلصی ممکن نہیں ، تو اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے برباد اور ویران کرنے لگے ۔ کہ مسلمان ان پر قبضہ کرکے ان سے استفادہ نہ کرسکیں ۔ غور فرمائیے ۔ یہ مال ودولت کی فراوانی ان کے کچھ بھی کام نہ آئی ۔ کیا اسی لئے وہ تمام دخیا سے زیادہ حریض تھے ۔ کہ وقت پر ان کے اموال اور خزائن دوسروں کے کام آئیں ۔ کیا مکہ والوں نے ان کی مدد کی جن کے ساتھ انہوں نے سازباز کرکے معاہدہ شکنی کا ارتکاب کیا تھا ۔ یہ کتنی عبرت ناک بات تھی ۔ کہ ایک قوم اپنے گھروں سے نہایت ذلت اور اعتقاد کے ساتھ نکال جارہی تھی ۔ اور اپنے اموال سے محروم کی جارہی تھی ۔ اس پاداش میں ۔ کہ اس نے اپنی ساری عمر دولت کے حصول میں خرچ کی ۔ اور حق کو تسلیم نہ کیا ۔ مذہبی حقائق کو جھٹلایا ۔ اور دنیائے عاجل کو ترجیح دی ۔ یہ قوم جس کو دولت سے محبت تھی ۔ جس کے سامنے کوئی اخلاقی اور روحانی نصب العین نہ تھا ۔ ضروری تھا کہ اس عذاب میں گرفتار ہوتی ۔ یہ عجیب بات ہے کہ اسلام نے ان کو جو ان کے قلعوں سے اور محلات سے نکالا ۔ تو پھر ان کو چین کے ساتھ رہنے کا کہیں موقع نہیں ملا ۔ قرآن نے فرمایا تھا کہ یہ اول حشر ہے ۔ جس کے معنے یہ تھے ۔ کہ اس نوع کے اور اس قبیل کے کئی حشر ان پر ٹوٹنے والے ہیں ۔ چنانچہ یہ پیشگوئی ثابت ہوتی ۔ اور اس قوم مغضوب کو دیتا میں ذلت واحقار کی زندگی بسر کرناپڑی ۔ اور باوجود دولت کی کثرت کے اور سیم وزر کے انباروں کے رہنے کے لئے انہیں کہیں ٹھکانا نہ ملا *۔ فرمایا : کہ اگر اس بدعہدی کی پاداش میں ان کو جلاوطن کیا جاتا ۔ تو ان کی سزا یہ تھی ۔ کہ ان کو مارڈالا جاتا ۔ کیونکہ ان کی فہرست جرائم ہایت سنگین تھی ۔ اور اس بات کی متقاضی تھی ۔ کہ ان سے زندگی کو چھین لیا جائے ۔ اور پھر آخرت میں جو عذاب ان پرنازل ہوتا ۔ وہ اس پر مستزاد ہوتا کیونکہ انہوں نے سخت قسم کے عنا دکا مظاہرہ کیا ۔ اور اللہ اور اس کے رسول سے کھلم کھلا غداری کی ۔ اس لئے اللہ کا غضب بھڑکانا گریز اور ضروری تھا *۔ حل لغات : ۔ سبح ۔ پاکی بیان کرنا ہے ۔ اللہ کے قانون کا تبع ہے ۔ اور اپنی اطاعت کا ہر لمحہ اظہار کرتا رہتا ہے ۔ لاول الحشر ۔ اس طرف اشارہ ہے کہ یہودیوں کو جلاوطنی کا یہ پہلی دفعہ پہنچا ہے ورنہ وہ اس سے قبل عربوں میں بڑے ٹھاٹ اور وقار کے ساتھ رہتے تھے * الرسف وہ طوف ۔ وہ خوف جو پورے طور پر دل میں سما جائے *۔