سورة الحشر - آیت 2

هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر کے وقت نکالا (١) تمہارا گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ خود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کے (سنگین) قعلے انہیں اللہ (عذاب) سے بچا لیں گے (٢) پس ان پر اللہ کا عذاب ایسی جگہ سے آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا (٣) اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا (٤) اور وہ اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے تھے (٥) اور مسلمان کے ہاتھوں (برباد کروا رہے تھے) ( ٦) پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو۔ (٧)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

مقام عبرت (ف 2) یہودی مالدار بھی تھے اور محفوظ قلعوں میں پناہ گزین بھی ۔ مگر جب عساکر اسلامی نے محاصرہ کیا اور لڑائی کے لئے للکارا تو ان کی ہمتیں پست ہوگئیں ۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا رعب ڈالا کہ تاب مقاومت نہ لاسکے اور قلعہ بندہوکر بیٹھ رہے ۔ اور جب دیکھا کہ مخلصی ممکن نہیں ، تو اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے برباد اور ویران کرنے لگے کہ مسلمان ان پر قبضہ کرکے ان سے استفادہ نہ کرسکیں ۔ غور فرمائیے یہ مال ودولت کی فراوانی ان کے کچھ بھی کام نہ آئی ۔ کیا اسی لئے وہ تمام دنیا سے زیادہ حریص تھے کہ وقت پر ان کے اموال اور خزائن دوسروں کے کام آئیں ۔ کیا مکہ والوں نے ان کی مدد کی جن کے ساتھ انہوں نے سازباز کرکے معاہدہ شکنی کا ارتکاب کیا تھا ۔ یہ کتنی عبرت ناک بات تھی کہ ایک قوم اپنے گھروں سے نہایت ذلت اور احتقار کے ساتھ نکالی جارہی تھی اور اپنے اموال سے محروم کی جارہی تھی ۔ اس پاداش میں کہ اس نے اپنی ساری عمر دولت کے حصول میں خرچ کی اور حق کو تسلیم نہ کیا ۔ مذہبی حقائق کو جھٹلایا اور دنیائے عاجل کو ترجیح دی ۔ یہ قوم جس کو دولت سے محبت تھی جس کے سامنے کوئی اخلاقی اور روحانی نصب العین نہ تھا ۔ ضروری تھا کہ اس عذاب میں گرفتار ہوتی ۔ یہ عجیب بات ہے کہ اسلام نے ان کو جو ان کے قلعوں سے اور محلات سے نکالا تو پھر ان کو چین کے ساتھ رہنے کا کہیں موقع نہیں ملا ۔ قرآن نے فرمایا تھا کہ یہ اول حشر ہے جس کے معنی یہ تھے کہ اس نوع کے اور اس قبیل کے کئی حشر ان پر ٹوٹنے والے ہیں ۔ چنانچہ یہ پیشگوئی ثابت ہوئی اور اس قوم مغضوب کو دنیا میں ذلت واحتقار کی زندگی بسر کرناپڑی اور باوجود دولت کی کثرت کے اور سیم وزر کے انباروں کے رہنے کے لئے انہیں کہیں ٹھکانا نہ ملا ۔ فرمایا کہ اگر اس بدعہدی کی پاداش میں ان کو جلاوطن نہ کیا جاتا تو ان کی سزا یہ تھی کہ ان کو مارڈالا جاتا کیونکہ ان کی فہرست جرائم نہایت سنگین تھی ۔ اور اس بات کی متقاضی تھی کہ ان سے زندگی کو چھین لیا جائے ۔ اور پھر آخرت میں جو عذاب ان پرنازل ہوتا وہ اس پر مستزاد ہوتا کیونکہ انہوں نے سخت قسم کے عنا دکا مظاہرہ کیا ۔ اور اللہ اور اس کے رسول سے کھلم کھلا غداری کی اس لئے اللہ کا غضب بھڑکنا ناگریز اور ضروری تھا ۔ حل لغات: لِأَوَّلِ الْحَشْرِ۔ اس طرف اشارہ ہے کہ یہودیوں کو جلاوطنی کا یہ صدمہ پہلی دفعہ پہنچا ہے ورنہ وہ اس سے قبل عربوں میں بڑے ٹھاٹ اور وقار کے ساتھ رہتے تھے الرُّعْبَ ۔ وہ خوف جو پورے طور پر دل میں سما جائے ۔