سورة الحديد - آیت 22

مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے (١) نہ (خاص) تمہاری جانوں میں (٢) مگر اس سے پہلے کہ ہم پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے یہ کام اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہے۔ (٣)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مسئلہ تقدیر کی بالکل آسان صورت ف 2: ہر وہ شخص جو خدا پر ایمان رکھتا ہے ۔ اور جہ یہ مانتا ہے ۔ کہ اس کو ذرہ وزرہ باتفصیلی علم ہے ۔ وہ لازم طور پر اس بات کا قائل ہے ۔ کہ کوئی چیز بھی اس کی گرفت سے باہر نہیں ۔ وہ چھپی ڈھکی سب اشیاء سے واقف ہے اور ہر بات کو وقوع سے پہلے جانتا ہے ۔ اسلام اس باب میں صرف یہ اضافہ کرتا ہے ۔ کہ یہ علم لوح محفوظ میں منضبط ہے ۔ اور فرشتوں کی سہولت کے لئے ایک کتاب میں لکھا رکھا ہے اور ظاہر ہے ۔ کہ اتنے سے اضافہ سے نفس مسئلہ کے سمجھنے میں کوئی نئی دلنوازی ہونا ضروری ہے ۔ اب قرآن بھی یہ کہتا ہے ۔ کہ علم غیب ضبط تحریر میں بھی آچکا ہے ۔ کے لئے اس میں کیا استحالہ ہے ۔ یہی تدیر ہے ۔ جس میں خواہ مخواہ بھاؤ پیدا کئے جاتے ہیں ۔ اور سمجھا یہ جاتا ہے ۔ کہ یہ مسئلہ نہایت ہی مشکل ہے اور ناقابل فہم حالانکہ یہ بات نہیں ہے ۔ بات صرف اتنی ہے ۔ کہ خدانے اس کائنات کو پیدا کیا ۔ اور وہ اس کی فطرت سے پوری طرح آگاہ ہے ۔ اور بس فرمایا ۔ مسئلہ تقدیر پر ایمان لانے سے یہ فائدہ ہوتا ہے ۔ کہ انسان مصائب ومشکلات میں گھبراتا نہیں ہے اور مسرت کے وقت جھلک نہیں جاتا ۔ وہ دکھ اور تکلیف کا دلیرانہ مقابلہ کرتا ہے ۔ اور سمجھتا ہے کہ اگر یہ چیزیں میری قسمت میں مقدر ہیں تو خوف وہراس کی کوئی وجہ نہیں ۔ الور مسرت وشادمانی میں اللہ کا شکرادا کرتا ہے ۔ اور اس کے حال میں ایمان موجود ہوتا ہے ۔ کہ یہ سب اس کی عنایات کی طفیل ہے ۔ ورنہ میرے اعمال ہرگز اس قابل نہیں ۔ گویا مسئلہ تقدیر ایک نوع کا کیرکٹر پیدا کرتا ہے ۔ اور مرد مسلمان کو بلند نگاہ دیتارہتا ہے ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اس مسئلہ کو باالحق ضیافت دیکھتے ہیں ۔ اور کے معنے یہ سمجھتے ہیں ۔ کہ گل اور جدوجہد کی سرے سے ضرورت ہی نہیں کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا *۔ حل لغات : فاخور ۔ ہدایت ناز کرنے والا ۔ سرکش * وانزلنا الحدید ۔ نزول حدید ایک حقیت سے جس کا انکشاف اب ہوا ہے ۔ طبقات ارض کے ماہرین کا خیال ہے کہ زمین کے دوران اجتہاد میں لوہے کے ابر اٹھتے تھے اور بخارات کی اشکال میں ترشیح ہوجاتا تھا ۔ اس لئے جہاں یہ صحاب حدید برسا ہے وہاں لوہا موجود ہے اور وہیں لوہے کی کانیں موجود ہیں ۔ کس کے معنے یہ ہیں کہ قرآن حکیم نے ان سے چودہ سو سال قبل اس کا اظہار کیا ہے ۔ جبکہ القرآنی علم بھی بالکل ابتدائی منزل میں تھا *۔