أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
کیا اب تک ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں (١) اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی (٢) پھر جب زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے (٣) اور ان میں بہت سے فاسق ہیں۔ (٤)
(ف 2) ہجرت کے بعد مسلمانوں کو مدینہ میں آرام ملا تو وہ گرم جوشی عمل کی باقی نہیں رہی جو مصائب کے وقت تھی ۔ اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عتاب نازل فرمایا کہ یہی وقت تو اظہار تشکر درخشیت وانفعال کا ہے ۔ کیونکہ آسودگی اور تنعم میں خدا کو یاد رکھنا گویا اس کے دین کو دوبارہ زندہ کرنا ہے ۔ تمہیں اہل کتاب کی طرح نہ ہونا چاہیے کہ جوں جوں زمانہ گزرتا جائے انکے دلوں میں قساوت پیدا ہوتی چلی جائے ۔ اور گداز جو اصل دین ہے رخصت ہوجائے ۔ بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ مرور زمانہ کے ساتھ تمہارے دلوں میں تائید کا جذبہ اور زیادہ مضبوط ہوتا چلا جائے اور زمانے کا یہ بعد تمہارے ذہن کی تازگی میں کوئی تبدیلی نہ پیدا کرسکے ۔ حل لغات: الْأَمَدُ۔ مدت۔ غرض یہ ہے کہ زمانہ جس طرح نوائے جسمانی پر اثر انداز ہوتا ہے اسی طرح مذہبی جذبات بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔ مگر مومن کی شان یہ ہے کہ وہ پوری طرح اس ضعف واضمحلال کا مقابلہ کرے اور اپنی روح کہ ہر دم تازہ رکھے ۔