سورة الحديد - آیت 3

هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

وہی پہلے ہے اور وہی پیچھے، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی، وہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے (١)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

خدا اول کیوں کر ہے ؟ (ف 1) خدا کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اول ہے اور اس کو کائنات کی ہر چیز پر تقدم حاصل ہے ۔ مگر قدیم حکماء کے لئے بڑی مشکل کا سامنا تھا وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس تقدم کی نوعیت کیا ہے کیونکر انہوں نے عام طور پر تقدم کی پانچ قسمیں لکھی ہیں. (1) تقدم بالتاثیر ۔ (2) تقدم بالاحتیاج (3) تقدم بالشرف (4) تقدم باالمرتبہ (5) اور تقدم بالریان ۔ اور پانچویں قسم کے تقدم کو تسلیم کرلینے میں انہیں عقلی استخانوں کا ایک انبار نظر آتا تھا ۔ اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ وہ ذات زمانہ ہر شئے سے مقدم ہے تو خود اس جملے کا مفہوم کیا ہے کیونکہ اس کو اول کہنا یہ خرد زمانے کو مستلزم ہے ۔ اور اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ اس وقت بھی زمانہ کا کوئی حصہ ایسا تھا جس کو آپ اول فرض کرلیتے ہیں اور جس کی وجہ سے آپ خدا کو سب سے پہلے قرار دے رہے ہیں ورنہ اس کا کچھ اور مفہوم ہی نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے سرگردہ عقلاءاسلام یعنی امام رازی نے بھی یہاں کامل تحیر کا اظہار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم یہ اجمال کی شکل میں تو تسلیم کرتے ہیں مگر تفصیلات کا سمجھنا ہماری سمجھ سے باہر ہے ۔ خدا بھلا کرے نظریہ اضافیت کے مصنف ” آئن سٹائن “ کا کہ اس نے اس الجھن کو دور کیا اور اس حقیقت کو پالیا ۔ اس نے کہا کہ زمانہ کوئی ازلی اور ابدی حقیقت نہیں ہے جیسا کہ تم سمجھتے ہو بلکہ یہ تو محض ایک اضافی چیز ہے ۔ اگر آج اشیاء موجود نہ رہیں یا ان میں حرکت مفقود ہوجائے تو زمانہ کا مفہوم ہی پیدا نہیں ہوسکتا اس لئے اس کا ازلاً اور ابداً موجود رہنا نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ عقلاً باطل ہے ۔ اس حکیم نے زمان ومکان کے تصور کو اس درجہ بدل دیا ہے کہ اب وہ پرانے اعتراضات قطعاً وارد نہیں ہوتے ۔ اب یہ عقیدہ کہ خدا اول ہے بالکل واضح ہے کہ اس نے زمانے اور مقام ومکان کو بھی پیدا کیا ہے ۔ کان ولم یکن شیء اور وہ تمام مخلوق سے ان معنوں میں پہلے سے کہ اس کی شان صمدیت کے ساتھ وقت اور مقام کے لئے بھی کوئی جگہ نہ تھی اور وہ اس وقت تھا جبکہ خود عدم بھی معدوم تھا ۔ اور مکان بھی مقام نفی قرار دیا آخر کے معنی جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اس کے بعد کوئی چیز تمہیں ظاہر ہے کہ اس کا ثبوت بالکل بدیہی اور واضح ہے وجدان وذوق اس کو تسلیم کرتا ہے ۔ اور قلب ودماغ کے تمام گوشوں پر وہ مسلط ہے ۔ اگر انسان چاہے بھی کہ اس کا انکار کردے جب بھی اس کی وضاحت پھراعتراف کی زنجیریں لاکر پہنادیتی ہے ۔ باطن کہنے سے غرض یہ ہے کہ باوجود اس تیقن اور اس تحقق کے اگر منطق اور غوروفکر کی چھائیوں میں اس کو جاننا چاہو تو ناممکن ہے ۔ اگر صحت اور فلسفہ کی آنکھوں سے دیکھنا چاہو تو اس کا وجود سراپردہ خفاء میں ہے یعنی وہ مستور بھی ہے اور ظاہر بھی ہے اور واضح بھی ہے اور مخفی بھی ۔