وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا
تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کر دے (١) یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکالے (٢)
فاحشہ کی سزا : (ف ١) اس آیت میں فاحشہ کی سزا کا ذکر ہے کہ اگر کوئی عورت فحش کا ارتکاب کرے اور ثابت ہوجائے تو اسے گھر میں بند کر دو تاکہ آیندہ فتنہ کی گنجائش نہ رہے ۔ اور اگر مرد برائی کا ارتکاب کرے تو اسے سزا دو ، تاآنکہ وہ توبہ کرلے ، پھر اس سے تعرض نہ کرو ۔ ان ہر دو آیات کے مصداق ومحل میں اختلاف ہے جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد زانی مرد اور عورت ہے اور یہ حکم تقرر حد سے پہلے کا ہے چنانچہ جب حد کا تقرر ہوا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” خذوا عنی قد جعل اللہ لھن سبیلا “۔ کہ آؤ میں بتاؤں اللہ تعالیٰ نے ان کے فیصلہ کی سبیل بتا دی ہے اس صورت میں یہ حدیث آیت کی مخصص ہوجائے گی ، ابومسلم کہتے ہیں ، یہ دونوں آیتیں تفاحش جنسی کے بیان میں ہیں ، اس میں زنا کا ذکر نہیں یعنی اگر دو عورتیں مل کر ارتکاب فحش کریں اور شہادت ہوجائے تو پھر انہیں بطور سزا کے گھروں میں محبوس رکھا جائے ، اور اگر مرد شہوت جنسی کا ارتکاب کرے تو اسے سزا دی جائے ، مگر یہ تاویل گو چلتی ہوئی ہے لیکن درست نہیں ، اس لئے کہ حدیث میں توضیح آچکی ہے اور اس لئے بھی کہ زانیہ کے لئے تو گواہوں کی ضرورت ہے ، اس کے لئے تو ذرا سختی کے ساتھ تادیب کافی ہے ۔ حل لغات : الفاحشۃ : برائی زنا ۔