وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُّسْتَطَرٌ
(اسی طرح) ہر چھوٹی بڑی بات لکھی ہوئی ہے (١)
قضاوقدر کیا ہے ۔ ! (ف 1) صدیوں سے مسئلہ متکلمین کے نزدیک مابہ النزاع رہا ہے کہ قضاوقدر کا مفہوم کیا ہے ۔ کیا اللہ تعالیٰ بندوں کے تمام افعال کو خود پیدا کرتا ہے یا بندے اپنے اعمال میں آزاد اور خود مختار ہیں ۔ اس باب میں اول شرعی احتساب اور باز پرس کی حدود سمجھ لیجئے ۔ اگر یہ فیصل شدہ ہے کہ سب کچھ پہلے سے مقدر ہوچکا ہے اور حرکت اور جنبش فکر پہلے سے متعین اور مقرر ہے تو پھر گناہ اور معصیت کسے کہتے ہیں ۔ اور اگر ہم بالکل آزاد اور خودمختار ہیں تو اس قضا وقدرکے مسئلہ کی حیثیت کیا ہے ۔ جواب یہ ہے کہ قرآن کے نقطہ نگاہ سے انسان کی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کو بوجہ اس کے علیم ہونے کے معلوم ہے اور مقررومتعین بھی ہے ۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ تقرر وتعین جو بمرتبہ علم کے ہے ۔ ہمارے اعمال وافعال پر اثر انداز بھی ہوتا ہے ۔ اس کے معنی تو یہ ہیں چونکہ وہ خدا ہے اور اس نے کائنات کو پیدا کیا ہے اس لئے وہ اس کی نیچر سے پورے طور پر آگاہ ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں کن اعمال کا ارتکاب کریگا اور کس طرح کے عقائد رکھے گا ۔ یہ علم اس لئے ہے کہ وہ خدا ہے اس لئے نہیں کہ اس کا تعلق ہمارے اعمال وافعال سے ہے ۔ یعنی علم موثر نہیں بلکہ نتیجہ ہے اس کی ذات معارف صفات کا ۔ مسئلہ کا یہ پہلو ایسا ہے کہ تمام خدا پرست اس کو تسلیم کریں گےکیونکہ خدا کے لئے کائنات کے متعلق بالتفصیل معلومات رکھنا ضروری ہے ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق براہ راست اس کے تخیل کے ساتھ وابستہ ہے ۔ کوئی شخص جو خدا کو مانتا ہے اس کا انکار نہیں کرسکتا ۔ ہاں اس آیت میں ایک امر زائد یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ معلومات لوح محفوظ میں ثبت فرما رکھی ہیں تاکہ فرشتے جو کائنات میں نظم ونسق پر مامور ہیں اس کے مطالعہ سے بہرہ مند ہوں اور اس میں کوئی عقلی استحالہ موجود نہیں ۔ باقی رہی یہ بات کہ انسان مجبور ہے یا مختار یہ ایک جدا بحث ہے اس کا تعلق اس مسئلہ کے ساتھ نہیں ہے ۔