الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ
اور ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بے حیائی سے بھی سوائے کسی چھوٹے گناہ کے (١) بیشک تیرا رب بہت کشادہ مغفرت والا ہے، وہ تمہیں بخوبی جانتا ہے جبکہ اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے (٢) پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو۔ وہی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے
خدا کا مطالبہ (ف 1) اللہ تعالیٰ کایہ کرم ہے کہ وہ اپنے بندوں سے سو فیصد ہی نیک ہونے کا مطالبہ نہیں کرتا اور یہ نہیں چاہتا کہ ان سے کسی لغزش اور کوتاہی کا صدور نہ ہو ۔ کیونکہ اس نے انسان کو بنایا ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ اس ظلوم وجہول انسان کی طبیعت کس قسم کی ہے ۔ وہ صرف یہ توقع رکھتا ہے کہ جہاں تک متعین گناہوں اور کھلی کھلی برائیوں کا تعلق ہے انسان ان سے بچنے اور ان سے موافقت نہ کرے ۔ زندگی کا تصور صحیح ہو دماغ درست ہو اور عقیدہ ایسانہ ہو جو اس کو گمراہ کردے ۔ تو پھر اللہ اتنا واسع المغفرت ہے کہ چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر مواخذہ نہیں کریگا ۔ وہ تو یہ بھی کرسکتا ہے کہ کبائر سے بھی چشم پوشی کرلے اور بڑے بڑے گناہوں سے درگزر کردے ۔ مگر ایسا کرنا خوہ انسان کے لئے مضر ہے ۔ اس سے معنی صاف طور پر یہ ہیں کہ دنیا میں بےخوف وخطر اللہ کے احکام کی مخالفت ہو ۔ اور بلا ادنی تامل کے معاصی کا ارتکاب کیا جائے ۔ اس طریق سے انسانی روح کے ناپاک اور تاریک ہوجانے کا اندیشہ تھا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنادیا کہ یاد رکھو ان لغزشوں کو چھوڑ کر جو بتقاضائے بشریت تم سے صادر ہوتی ہیں باقی احکام شریعت کی مخالفت میں پوری پوری سزادی جائے گی ۔ اس کے بعد یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا ہے اور وہ ان تمام منزلوں سے آگاہ ہے جن میں سے گزر کر تم نے یہ شکل وصورت اختیار کی ہے ۔ اس لئے اس کے سامنے مشخیت اور تقدس کا اظہار نہ کرو اس کی نگاہوں سے متقی اور پرہیز گار اوجھل نہیں ہیں وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ تم میں سے کن لوگوں نے روگردانی کی اور اللہ کے عذاب کے مستحق ہوئے ۔ حل لغات: إِلَّا اللَّمَمَ۔ صغائر ۔ ہلکے ہلکے گناہ۔ أَجِنَّةٌ۔ جنین کی جمع ہے ۔