فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۖ قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ وَبَشَّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ
پھر تو دل ہی دل میں ان سے خوف زدہ ہوگئے (١) انہوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے (٢) اور انہوں نے اس (حضرت ابراہیم) کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی۔
اپنے اندر جھانک کر دیکھو ف 1: غرض یہ ہے ۔ کہ جن حقائق کو بیان کیا گیا ہے ۔ ان کی واقفیت اور سچائی میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ دلائل اور شواہد کا انبار موجود ہے احتیاج اس نظرکی ہے ۔ جو تغحص اور غور سے کام لے ۔ زمین کو دیکھو ۔ اس کے فوائد ۔ وسعت اور ساخت پر غور کرو ۔ خود اندر جھانکو ۔ اس عالم صغیر میں کیا نہیں ہے ؟ آسمانوں کی طرف نگاہیں اٹھاؤ۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اگر صرف آسمان اور زمین میں اللہ کی ربوبیتوں کی ذرا تفصیل کے ساتھ دیکھ جاؤ۔ تو تمہیں ہوجائے کہ جو کچھ کہا گیا ہے ۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسکین خاطر کے لئے قصص انبیاء کا مذکور ہے ۔ تاکہ بتایا جائے ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو ہر طرح کی کامیابی اور کامرانی سے نوازا ۔ اور مخالفین ہمیشہ ان کے مقابلہ میں غائب وخاسر رہے ہیں *۔ فرمایا ۔ کہ حضرت ابراہیم کے پاس اس وقت جب کہ وہ قوم کی طرف سے بہت زیادہ طول اور دل برداشتہ تھے ۔ فرشتے آئے اور انہوں نے آکر حضرت اسحاق کی ولادت کی خوشخبری سنائی *۔ حل لغات :۔ فصلت وجھہا ۔ یعنی فرط حیرت اور حیاء میں انہوں نے عورتوں کی عادت کے موافق اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہا کہ کیا یہ بھی ممکن ہے * ۔