سورة الذاريات - آیت 15

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

بیشک تقوٰی والے لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہونگے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

مساوات اور مقام احسان (ف 1) جو لوگ بہشتوں اور چشموں کے مستحق ہوں گے ان میں احسان کی استعداد ہوگی ۔ یعنی جہاں تک مخلوق الٰہی کا تعلق ہے ان کا رویہ نہایت مشفقانہ ہوگا ۔ بنی نوع انسان کے ساتھ انکو بدرجہ غایت حمیت ہوگی ۔ وہ اپنی زندگی کے اکثر لمحات کو دوسروں کی ہمدری میں صرف کرینگے ۔ اور اللہ کے ساتھ ان کی وابستگی کا یہ عالم ہوگا کہ بہت کم راتوں کو سوئیں گے ۔ بستر پر بےقرار اور بےچین رہیں گے اٹھیں گے اور آقا کے دربار میں کھڑے ہوجائیں گے ۔ اور اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کی معانی مانگیں گے ۔ ان کی روح اللہ کی حمدوستائیش میں مصروف ہوگی ۔ اور ان کا جسم خلق اللہ کی فلاح وبہبود کے لئے وقف ہوگا ۔ دولت ومال کو حاصل کریں گے مگر اس کو صحیح طور پر خرچ کردینے میں ان کو قطعاً تامل نہ ہوگا ۔ وہ یہ سمجھیں گے کہ اس مال ودولت میں ہر حاجت مند کا حصہ ہے ۔ ہم کو یہ بالکل استحقاق حاصل نہیں کہ ہم تو اپنے تمول سے آسائش اور آسودگی کی تمام صورتوں کا احاطہ کرلیں ۔ اور ہیئت اجتماعیہ کا بڑا حصہ ادنیٰ حاجات زندگی کا محتاج ہو ۔ غور فرمائیے اس مقام اتقاء میں اور اس مساوات میں جو سو شلزم پیدا کرتا ہے کتنا بڑا فرق ہے ۔ آپ جس کو مساوات کہتے ہیں قرآن اس ہمدردی کے جذبہ کو احسان کے ساتھ تعبیر کرتا ہے ۔ جو معنامساوات سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ احسان کے معنی یہ ہیں کہ اپنے ابنائے جنس کے ساتھ واجبات سے کچھ زیادہ سلوک روا رکھا جائے اور یہ محض پیٹ کے لئے نہ ہو ۔ اور ارذل ترین خواہشات کی بناء پر نہ ہو ۔ بلکہ اس لئے ہو کہ اس آقا سے تعلقات عقیدت وابستہ ہیں جو ساری کائنات کا یکساں پروردگارہے ۔ اور اس ارادت کا یہ تقاضا ہے کہ ہر سائل حاجت مند کی اس طرح اعانت کی جائے ۔ گویا وہ پہلے سے ہمارے اموال میں استفادہ کا حق رکھتا ہے ۔ اس نقطہ نظر کی وسعتیں اور پاکیزگی ملاحظہ ہو ۔ اور اس زاویہ نگاہ کی مادیت اور سطحیت دیکھئے جس کا تعلق محض خواہشات نفس سے ہے ۔ حل لغات : يَهْجَعُونَ۔ شب بسر کرنا ۔ سونا ۔