سورة الحجرات - آیت 5

وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اگر یہ لوگ یہاں تک صبر کرتے کہ آپ خود سے نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہی ان کے لئے بہتر ہوتا (١) اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ (٢)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: عنیہ بن حصن انفراری اور اقرع بن حابس کوئی ستر آدمیوں کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے کے لئے آئے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت حرم میں تشریف فرما تھے یہ لگے زور زور سے آوازیں دینے ، اس پر ان آیات کا نزول ہوا ۔ کہ اس طرح آپ کو مخاطب کرنا بےادبی اور بےعقلی ہے ۔ ان لوگوں کو چاہیے تھا کہ اطلاع کرادیتے اور پھر انتظار کرتے حتیٰ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آتے اور ان کی معروضات کو توجہ سے سن لیتے ۔ یاد رہے کہ یہ حکم اس وقت پیغمبر جلالت قدر کے تحفظ کے لئے ضروری تھا ۔ اور اسلام چونکہ ہرزمانے کے لئے موجب خیروبرکت ہے اس لئے اب اس کے یہ معنے ہونگے ۔ کہ دین میں خواہ مخواہ موشگافیاں کرنا درست نہیں ہیں جب تک کہ سنت خود کسی مسئلہ کی اہمیت کو واضح نہ کردے ۔ ہمیں کوئی استحقاق حاصل نہیں ۔ کہ ہم اس کو مذہب کا جزو بنانے کی کوشش کریں ۔ اور لادلائل تفصیلات سے اسلام کی سادگی اور اختصار کو نقصان پہنچائیں ۔ اس کے بعد ایک اصول ارشاد فرمایا ہے ۔ ہمیں پر کہ تنقید اور چھان بین کی تغریعت مترتب ہوتی ہیں ۔ اور جس سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ مسلمانوں کے لئے حالات سے باخبر رہنا کتنا ضروری ہے ۔ فرمایا کہ دیکھو تمہارے پاس کوئی فاسق اور ناقابل اعتماد آدمی خبر لائے ۔ تو بلا تحقیق اس پر اعتماد نہ کرلو ۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اندھا دھند اعتماد سے مسلمانوں کو نقصان پہنچ جائے ۔ اور وہ تمہارے سوء ظنکا خمیازہ بھگتیں ۔ واضح ہو کہ آج اس اصول تحقیق وتنقید کے صحیح استعمال نہ کرنے سے مسلمانوں کو کس قدر نقصان پہنچا ہے ۔ اس کا اندازہ کچھ وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کو حالات پر نظر ہے ۔ کہ مخالفین کی پھیلائی ہوئی باتوں کو ہم کس درجہ قرین عدل وانصاف سمجھنے لگے ہیں ۔ اور ان پر یوں یقین کرنے لگے ہیں جس طرح کہ وہ وحی والہام کی باتیں ہیں اور اس طرح خوداپنے بھائیوں سے بدظن ہیں اپنے اکابر سے بپھرے ہوئے ہیں اور اپنے مخلصین سے بیزار ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ انتشار ہے ۔ تفرقق وتخرب ہے اور پریشانی ہے *۔ مسلمانوں کی وحدت کی مسلک میں پرونے کے لئے اور ایک سطح پر مرکوز کرنے کے لئے یہ ضرری تھا ۔ کہ ان میں ہمیشہ ایک جماعت ایسی موجود ہے ۔ جو اختلافات کا جائزہ لیتی رہے ۔ اور جب مسلمانوں کے دو فریق میں جنگ ہو ۔ تو وہ بیچ میں پڑ کر صلح کرادے ۔ اور جو فریق نہ مانے اس کے خلاف قوت وطاقت کا استعمال کریں ۔ حتیٰ کے وہ فریق اپنی سرکشی سے باز آجائے اور خدا کے حکموں کے سامنے سرتسلیم خم کردے ۔ چنانچہ اس ضمن میں ارشاد فرمایا ۔ کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہوں میں اختلاف رائے سے جنگ وجدال کا موقع پیدا ہوجائے ۔ تو تم فوراً صلح کا پرچم لہراتے ہوئے ۔ درمیان میں کود پڑو ۔ اگر وہ تمہاری نہ مانیں ۔ تو ان کو سختی کے ساتھ مجبور کردو ۔ کہ اسلام کی وحدت کے لئے اور اس کے مفاد کے لئے اپنی ذاتی اغراض کو یک قلم ترک کردیں *۔ حل لغات :۔ فاسق ۔ برا آدمی ۔ ناقابل اعتماد * لعلکم ۔ تو تم مشکلات میں گفتار ہوجاؤ۔ عنت سے ہے ۔ جس کے معنے تکلیف کے ہوتے ہیں *۔