بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے (سورۃ الحجرات۔ سورۃ نمبر ٤٩۔ تعداد آیات ١٨)
ف 2: اس صورت میں ان آداب اور عواید ونیبہ کا ذکر ہے ۔ جو مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لئے ضروری ہیں ۔ اور جن پر عمل پیرا ہونا گویا دین اور دنیا کی سعادتوں سے بہرہ مندی حاصل کرنا ہے *۔ فرمایا سب سے پہلے تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت اور حرمت دنوں میں موجود ہونی چاہیے ۔ اور وہ اس حد تک ہوکر ان کے ارشادات کو اپنے لئے کافی وشافی قرار دیا جائے ۔ یعنی عقیدہ یہ ہو ۔ کہ جو کچھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ وہی بہتر ہے ۔ اور وہی اجروثواب کا موجب ہے ۔ اور جن چیزوں کو چھوڑ دیا ہے ۔ ان میں قطعاً خیروبرکت نہیں ہے ۔ یعنی یہ کوشش نہ کی جائے ۔ کہ ہم شرع کی باتوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی آگے نکل جائیں ۔ اور اپنے لئے ان اعمال وافعال کو لازمی سمجھ لیں ۔ جن کا سنت میں کوئی ذکر ہی نہیں ۔ کیونکہ جب یہ طے ہے ۔ کہ اللہ کا علم بہرآئینہ کامل ہے ۔ اور تمام مصالح پر اس کی نظر ہے ۔ تو پھر یہ کہنا کہ گو اس بات کا ثبوت حضور سے نہیں ملتا ۔ مگر یہ فعل بجائے خود مستحسن اور موجب ثواب ہے ۔ محض غلط ہے ۔ اگر اس میں خیروسعادت کا کوئی پہلو بھی ہوتا ۔ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو نظر انداز نہ فرماتے ۔ اور ضرور اس کا ذکر کرتے ۔ آیت کا منشاء یہ ہے ۔ کہ اس نوع کے جدیدافعال کا ارتکاب مذہب کے نام پر اور مذہبی شکل وصورت میں حرمت نبوی کے منافی ہے ۔ اور اس بات کے مترادف ہے کہ آپ پیغمبر کو اپنے لئے کامل اور جامع اسوہ نہیں سمجھتے ۔ آداب دربار نبوت میں سے دوسری چیز یہ ہے ۔ کہ مخاطبین جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرف تخاطب حاصل کریں ۔ تو آواز میں عاجزی ، محبت اور عقیدت کا اظہار ہونا چاہیے ۔ چیخ چیخ باتیں کرنا ۔ اور بلند آواز سے سامعہ پیغمبر کو اذیت پہنچانا درست نہیں ۔ کیونکہ اس طرح دلوں میں گستاخی کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ اور قلب سیاہ ہوجاتا ہے ۔ فرمایا ۔ ایسا نہ ہو ۔ کہ تم اپنے اعمال ضائع کرو ۔ اور تمک معلوم بھی نہ ہو ۔ کہ کیوں تم اجروثواب سے محروم قرار دیدیئے گئے ۔ یاد رکھو ادب واحترام ایمان کا جزو ہے اور وہ لوگ جو اس سے محروم ہیں ۔ ایمان کی حلاوت سے محروم ہیں ۔ اب جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تخاطب کے لئے ہم میں موجود نہیں ۔ اس حکم کا منشا یہ ہوگا ۔ کہ ان کی آواز اور ان کا پیغام سنت میں موجود ہے اور وہ شخص سخت ناہنوار اور بےادب سے جو اپنی رائے کو اس آواز سے یعنی صوت رسول سے زیادہ اہم اور لائق احترام سمجھتا ہے ۔ ع بے ادب محروم مانداز فضیل رب مسلمان کا شیوہ یہ ہے کہ جس طرح وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں مکلف تھا ۔ کہ اپنی آواز کو رسول کی آواز کے مقابلہ میں پست رکھے اسی طرح آج بھی آپ کے پیغام کے سامنے اور آپ کی سنت کے سامنے لب کشائی نہ کرے ۔ اور اپنے فہم وادراک سے اس میں دخل نہ دے ۔ بلکہ یہ سمجھے کہ بہرحال میرے لئے ساری کائنات کے لئے آپ ہی کے اسوہ میں برکت وسعادت ہے *۔ حل لغات :۔ مغضون ۔ پست رکھتے ہیں * الحجرات ۔ حجرے *