سورة الفتح - آیت 25

هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا (١) اور قربانی کے لئے موقوف جانور کو اس کی قربان گاہ میں پہنچنے سے روکا اور اگر ایسے بہت سے مسلمان مرد اور (بہت سی) مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تم کو خبر نہ تھی (٢) یعنی ان کے پس جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کی وجہ سے تم کو بھی بے خبری میں ضرر پہنچتا (٣) تو تمہیں لڑنے کی اجازت دی جاتی (٤) لیکن ایسا نہیں کیا (٥) تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرے اور اگر یہ الگ الگ ہوتے تو ان میں جو کافر تھے ہم ان کو دردناک سزا دیتے۔ ( ٦)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف 2) کفار کی اس حرکت کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر روک لیا اور مناسک حج کے ادا کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ فرمایا اگر یہ احتمال نہ ہوتا کہ مسلمانوں کے حملہ سے بےخبری میں بعض ان مسلمانوں کو نقصان پہنچ جائے گا جو مکہ میں رہتے ہیں تو فیصلہ ہوچکا ہوتا اور ان کے اس اقدام کی پوری پوری سزادیجا چکی ہوتی ۔ مگر اللہ کو تو یہ منظور تھا کہ بغیر اس کے کہ ان مسلمانوں کو ابتلاء اور آزمائش میں ڈالا جائے مگر فتح ہوجائے ۔ اور اس طرح ان لوگوں کو وہ اپنی آغوش رحمت میں لے لے ۔ ہاں اگر کفار اور مسلمانوں میں کوئی امتیاز پیدا ہوجاتا تو پھر یقینا جہاد کے ذریعہ ان لوگوں کو سخت ترین سزادی جاتی ۔ حل لغات : الْهَدْيَ ۔ قربانی کا جانور۔ مَحِلَّهُ۔ اس کے موقع میں ۔ اپنے مقام۔ مَعَرَّةٌ۔ نقصان ۔ تکلیف۔ تَزَيَّلُوا۔ چھٹ جائے ۔ جدا جدا ہوجائے ۔ ٹل گئے۔