سورة الفتح - آیت 9

لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

تاکہ (اے مسلمانو)، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو اور اللہ کی پاکی بیان کرو صبح و شام۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حضور (ﷺ) کے تین منصب (ف 3) شاہد سے مراد یہ ہے کہ حضور (ﷺ) تمام حقائق کو تسلیم کرتے ہیں اور تمام سچائیوں کو بالمو جبہ دیکھ رہے ہیں ۔ آپ کی تعلیمات میں خصوصیت کی بات یہ ہے کہ ان میں محض حق وصداقت پر گواہی اور شہادت ہے ۔ کسی فرقہ یا جماعت کے خیالات کی تائید یا تردید نہیں ۔ یعنی آپ نے پہلی اور آخری دفعہ اس عقیدے کا اعلان فرمایا ہے کہ اللہ کی رحمتیں عام ہیں تمام قومیں اس کے فضل وکرم سے بہرہ مند ہوتی ہیں اور الہام ووحی کے لئے بنی اسرائیل یا دوسری قوموں کی کوئی خصوصیت نہیں ۔ آپ کا مشن یہ ہے کہ کائنات انسانی میں جہاں کہیں بھی صداقت ہو کسی صورت اور کسی پیرایہ بیان میں ہو اس کی حقانیت پر شہادت دیں ۔ اور بتلائیں کہ سچائی تمام دنیا کی مشترکہ میراث ہے اس میں جھگڑے اور بحث کرنے کی ضرورت نہیں ۔ غرض یہ ہے کہ آپ ایسے صیحفہ رشدوہدایت کو اپنے ساتھ لائے ہیں جس میں سعادت اور کامیابی کی خوشخبری ہے ۔ آپ نے مایوسی اور قنوط سے نکال کر انسان کو تیقن کے میدان میں لاکھڑا کردیا ہے ۔ آپ وثوق کے ساتھ فرماتے ہیں کہ اگر عقبی کی بشارتوں سے روح اور جسم کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو میری طرف آؤ اور فطرت کی جانب پلٹو ۔ نذیر کے معنی یہ ہیں کہ آپ کا انکار محض ایک نظام انکار کا انکار نہیں ہے بلکہ اللہ کا انکار ہے ۔ اس کی رحمتوں اور بخششوں کا انکار ہے اور عملاً اس مطالبہ کے مترادف ہے کہ ہم کو ہمارے گناہوں کی اور ہماری گستاخیوں کی سزا دی جائے۔فرمایا رسول کو اس لئے بھیجا گیا ہے تاکہ تم اللہ پر ایمان لاؤاور اس کے ساتھ عقیدت رکھو اس کی مدد کرو اور اس کی توقیر کرو اور اس کے بھیجنے والے کی حمدوتسبیح میں صبح وشام مصروف رہو ۔ حل لغات : بُكْرَةً۔ صبح ۔ أَصِيلًا۔ شام۔