سورة الفتح - آیت 2

لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تاکہ جو کچھ تیرے گناہ آگے ہوئے اور پیچھے سب کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے (١) اور تجھ پر اپنا احسان پورا کر دے (٢) اور تجھے سیدھی راہ چلائے (٣)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

غفران ذنب کے ضمن میں اہل تفسیر نے حسب تاویلات کا ذکر کیا ہے :۔ (1) ذنبک سے مراد مسلمانوں کے گناہ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ مخاطب اول ہیں ۔ اس لئے ان کی وساطت سے گناہوں کی بخشش عام کا کردہ سنایا ہے *۔ (2) مخاطب تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر ذنب کے معنے ترک اولیٰ کے ہیں ۔ معصیت اور نافرمانی کے نہیں ہیں *۔ (3) اس سے صغائر مراد ہیں ۔ جن کا صدور انبیاء سے ہوسکتا ہے *۔ (4) اس سے مقصود عصمت کا ثبوت ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ گناہوں کو آپ نظروں سے اوجھل کردیں *۔ مگر ان سب تاریکوں میں ایک نقص یہ ہے کہ ان کا تعلق نفس واقعہ سے کچھ بھی نہیں معلوم ہوتا ۔ آیات میں تو فتح مکہ کا مراوہ سنایا جارہا ہے ۔ اور درمیان میں غفران ذنب کا ذکر آگیا ہے ۔ جو بظاہر بالکل غیر متعلق معلوم ہوتا ہے * اصل بات یہ ہے کہ ذنب کے معنی یہاں گناہ معصیت یا ترک اولیٰ کے نہیں ہیں ۔ بلکہ الزام کے ہیں ۔ اور اس کی نظیر خود قرآن میں ملتی ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں ۔ ولھم علی ذنب کہ قبطیوں کا میرے اوپر ایک الزام ہے ۔ تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ آیت کے معنے بالکل واضح ہیں ۔ کہ فتح مکہ کے بعد جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مکے والوں سے نہایت تپاک اور محفوظ سلوک کرنے کے اور ان لوگوں کو زیادہ قریب ہوکر اسلام کا مطالعہ کرنے کا موقع ملیگا ۔ تو پھر وہ الزامات جو انہوں نے آپ کی جانب منسوب کررکھے تھے ۔ یا جن کے انتساب کا مستقبل میں احتمال پیدا ہوسکتا ہے ۔ وہ دور ہوجائیں گے ۔ اور فتح مکہ کی فرض بھی یہ ہے ۔ کہ ان لوگوں کو مشکوٰۃ نبوت کے انوار سے براہ راست استفادہ کی توفیق میسر ہو ۔ اور ان کے دلوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے متعلق جو شکوک وشبہات ہیں ۔ ان کا ازالہ ہوجائے *۔ یہ بات اسلامی مسلمات میں سے ہے ۔ کہ انبیاء علیہم لاسلام نہ صرف معصوم ہوتے ہیں ۔ بلکہ ان کے آنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ معصوم انسانوں کے ایک گروہ کو پیدا کریں ۔ ویزکیھم اس لئے ان کے باب میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ کہ وہ خودبھی معصوم ہوتے ہیں ۔ یا انہیں انکا مقام وعصمت سے زیادہ بلند ہوتا ہے ۔ وہ اس پاکیزگی سے بہرہ مند ہوتے ہیں ۔ جو عام انسانوں کے حصہ میں نہیں آسکتی *۔