سورة الفتح - آیت 1

إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

بیشک (اے نبی) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے۔ (١)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

سورۃ الفتح (ف 1) یہ سورۃ صلح حدیبیہ کے متعلق نازل ہوئی ہے اور اس میں فتح مکہ کی کھلے لفظوں میں پیشگوئی کی گئی ہے ۔ اس میں بتلایا گیا ہے کہ آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ حدیبیہ کے مقام پر جو معاہدہ کیا گیا ہے وہ شکست اور ہزیمت پر منتج ہوگا ۔ یہ تمہید ہے کامیابی کی اور بیش خیمہ ہے مظفر اور منصور ہونے کا اس کے بعد غفران ذنب کی بشارت ہے ۔ اور اتمام نعمت کی خوشخبری ہے ۔ اور اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سعادت اور برکت کی راہوں پر گامزن ہونے کی برابر توفیق مرحمت فرماتا رہے گا ۔ اور کسی حالت میں بھی نصرت واعانت سے دریغ نہیں کریگا ۔ غفران ذنب کے ضمن میں اہل تفسیر نے حسب تاویلات کا ذکر کیا ہے۔ (1) ذَنْبِكَ سے مراد مسلمانوں کے گناہ ، اور حضور (ﷺ) چونکہ مخاطب اول ہیں اس لئے ان کی وساطت سے گناہوں کی بخشش عام کا مژدہ سنایا ہے ۔ (2) مخاطب تو حضور (ﷺ) ہیں مگر ذنب کے معنی ترک اولیٰ کے ہیں ۔ معصیت اور نافرمانی کے نہیں ہیں ۔ (3) اس سے صغائر مراد ہیں جن کا صدور انبیاء سے ہوسکتا ہے ۔ (4) اس سے مقصود عصمت کا ثبوت ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ گناہوں کو آپ نظروں سے اوجھل کردیں ۔ مگر ان سب تاویلوں میں ایک نقص یہ ہے کہ ان کا تعلق نفس واقعہ سے کچھ بھی نہیں معلوم ہوتا ۔ آیات میں تو فتح مکہ کا مژدہ سنایا جارہا ہے اور درمیان میں غفران ذنب کا ذکر آگیا ہے جو بظاہر بالکل غیر متعلق معلوم ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ذنب کے معنی یہاں گناہ معصیت یا ترک اولیٰ کے نہیں ہیں بلکہ الزام کے ہیں ۔ اور اس کی نظیر خود قرآن میں ملتی ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں ﴿وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْبٌ کہ قبطیوں کا میرے اوپر ایک الزام ہے ۔ تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ آیت کے معنی بالکل واضح ہیں کہ فتح مکہ کے بعد جب حضور (ﷺ) ان مکے والوں سے نہایت تپاک اور محفوظ سلوک کریں گے اور ان لوگوں کو زیادہ قریب ہوکر اسلام کا مطالعہ کرنے کا موقع ملیگا تو پھر وہ الزامات جو انہوں نے آپ کی جانب منسوب کررکھے تھے یا جن کے انتساب کا مستقبل میں احتمال پیدا ہوسکتا ہے وہ دور ہوجائیں گے ۔ اور فتح مکہ کی غرض بھی یہ ہے کہ ان لوگوں کو مشکوٰۃ نبوت کے انوار سے براہ راست استفادہ کی توفیق میسر ہو ۔ اور ان کے دلوں میں حضور (ﷺ) کی ذات کے متعلق جو شکوک وشبہات ہیں ان کا ازالہ ہوجائے ۔ یہ بات اسلامی مسلمات میں سے ہے کہ انبیاء علیہم السلام نہ صرف معصوم ہوتے ہیں بلکہ ان کے آنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ معصوم انسانوں کے ایک گروہ کو پیدا کریں ﴿وَيُزَكِّيهِمْ﴾اس لئے ان کے باب میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ خودبھی معصوم ہوتے ہیں یا نہیں۔ انکا مقام عصمت سے زیادہ بلند ہوتا ہے ۔ وہ اس پاکیزگی سے بہرہ مند ہوتے ہیں جو عام انسانوں کے حصہ میں نہیں آسکتی ۔