سورة محمد - آیت 4

فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تو جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو گردنوں پر وار مارو۔ (١) اور جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تو اب خوب مضبوط قیدو بند سے گرفتار کرو (٢) (پھر اختیار ہے) کہ خواہ احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ (٣) لے کر چھوڑ دو یہی حکم ہے اور (٤) اگر اللہ چاہتا تو (خود) ہی ان سے بدلہ لے لیتا (٥) لیکن اس کا منشا یہ ہے کہ تم میں سے لے لے، ( ٦) جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کردیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ (٧)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جہاد کی حقیقت ف 1: یہ آیات مقام جہاد میں نازل ہوئی ہیں ۔ ان کو سمجھنے کے لئے پہلے چند باتوں کو ذہن نشین کرلینا چاہیے ۔ اور وہ یہ ہیں کہ :۔ (1) اسلام کی غرض دنیا میں تسکین وطمانیت کی فضا کو پیدا کرنا ہے ۔ اور نوع انسانی کو ایسے تکلفات پر مرکوز کرنا ہے ۔ جہاں رنگ وبو کے تمام اختلاف مٹ جاتے ہیں *۔ (2) ہر عقیدہ خیر کو اور ہر نظام برکات التیام کو پھیلانا ، نہ صرف جائز بلکہ انسانیت کے لئے ضروری ہے *۔ (3) تشدد کی تعریف یہ نہیں ہے کہ زندگی کے عمدہ پروگرام کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے قوت اور طاقت کا استعمال کیا جائے ۔ بلکہ یہ ہے ۔ کہ بری باتوں کو پھیلانے کے لئے حرب اور جنگ کے معرکے قائم کئے جائیں *۔ (4) اسلام اس روش کو پسندیدہ نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔ کہ جبراً کسی شخص کو اسلام کے حقائق کی طرف مائل کیا جائے ۔ چنانچہ وہ صاف طور پر کہہ چکا ہے ۔ کہ لا اکراہ فی الدین ۔ کہ مذہب کے باب میں بیڑاکراہ کو دخل نہیں ہے ۔ (5) باوجود اس کے کہ افراد کے معاملہ میں جبروتسخیر کی حکمت عملی جائز نہیں ۔ جب کوئی قوم اسلامی حقائق کو تسلیم نہ کرے ۔ اور اپنی قوت وطاقت سے افراد کے اس حق کو چھین لے ۔ کہ وہ آزادی کے ساتھ کسی مذہب کو قبول کرلیں ۔ تو پھر جہاد ضروری ہوجاتا ہے *۔ (6) جہاد بعض حالات میں دفاعی ہوتا ہے اور بعض حالات میں جارحانہ اور اس کی غرض وغایت بہرحال یہ رہتی ہے ۔ کہ مختلف انسانی جماعتوں اور طبقوں میں امن وسعادت کے توازن کو قائم رکھا جائے *۔ (7) جہاد بہر نوح ایک وسیلہ ہے ، مقصد نہیں ہے ۔ جب لوگوں کی روحانی اور اخلاقی قوتیں اس حد تک ترقی پذیر ہوجائیں ۔ کہ سچائی کو قبول کرنے کے لئے ان پر کسی نوع کی پابندی عائد نہ ہو ۔ تو اس وقت اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ ان تصریحات کی روشنی میں آیات جہاد پر غور فرمائیے ۔ قرآ کہتا ہے ۔ اگر دشمنوں کا سامنا ہو ۔ اور جنگ کی آگ مشتعل ہو ۔ تو پھر مسلمان بہادر سپاہی کی طرح لڑے ! اور مغرور اور سرکش گردنوں کو اڑاتا ہوا نکل جائے *۔ اور شدید خونریزی سے بھی درگزر نہ کرے ! اور دشمنوں کو گرفتار کرلے ۔ پھر چاہے تو یونہی ممنون کرکے ان کو چھوڑ دے ۔ اور چاہے تو جذیہ لے ۔ یہ معرکہ کا رزار اس وقت تک گرم رہے ۔ جب تک کہ فضا امن وثانیت کی صورت میں اختیار کرلے ۔ اسی طرح شریر وتیں دب جائینگی ۔ اور مفسد عناصر کا قلع قمع ہوجائے گا ۔ اور پھر امکان نہیں رہے گا کرامن کی فضا میں کفرو معصیت کسی نوع کی ابتری پیدا کرسکے *۔ حل لغات :۔ حتی تطنع الحراب اوزارھا ۔ جب تک کہ لڑنے والے اپنے ہتھیار نہ رکھ دیں ۔ کنیہ ہے امن وسکون سے *۔