وَلَمَّا جَاءَ عِيسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُم بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) معجزے لائے تو کہا۔ کہ میں تمہارے پاس حکمت والا ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ جن بعض چیزوں میں تم مختلف ہو، انہیں واضح کردوں (١) پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔
ف 2: ان آیات میں حضرت مسیح کی پہلی بعثت کا ذکر ہے ۔ کہ جب یہ تشریف لائے اور انہوں نے کہا ۔ کہ میں آیات وبراہین کے ساتھ آیا ہوں ۔ تاکہ تمہیں زندگی کے حکیمانہ نکات سے آگاہ کروں اور دین ومذہب کے نام سے جو تم نے اختلافات پیدا کررکھے ہیں ان کو مٹادوں ۔ اور تقویٰ واطاعت کے جذبات سے تم میں ترقی کی روح پھونک دوں ۔ دیکھو اللہ ایک ہے ۔ وہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے ۔ اس کی عبادت سے منہ نہ موڑو ۔ اس تک پہنچنے کی سیدھی راہ یہی ہے ۔ کہ توحید کے اسراء سے واقفیت حاصل کرو ۔ اور اپنے سر کو جبرا اس کے آشانہ جلال وقدس کے اور کسی کے سامنے نہ جھکاؤ*۔ ان کی قوم نے یہ باتیں سنیں ۔ اور جب دستور ان کو کوئی اہمیت نہ دی ۔ انکار و تمرد کو شیوہ بنالیا ۔ اور مسیح کی جان کے لاگو بن گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ یہ لوگ ظالم ہیں ۔ اور عذاب الیم کے مستحق ہیں ۔ یعنی قیامت میں لوگوں کی یہ حالت ہوگی ۔ کہ ہر نوع کے باہمی تعلقات مودت وعقیدت منقطع ہوجائیں گے ۔ بلکہ یہ ایک دوسری کی مخالفت کرینگے ۔ سوائے مومنین کے ان کے دل جس طرح دنیا میں حسد وبغض کے جذبات سے پاک تھے ۔ یہاں بھی پاک رہیں گے ۔ ان کے لئے جنت میں ہر طرح کی آسودگی مہیا ہوگی ۔ اور ان کو کسی قسم کا خوف اور غم نہ ہوگا *۔ حل لغات :۔ الشیطن ۔ یعنی گمراہ کن شخص *۔