سورة الزخرف - آیت 61

وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور یقیناً عیسیٰ (علیہ السلام) قیام کی نشانی ہے (١) پس تم (قیامت) کے بارے میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو یہی سیدھی راہ ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حضرت مسیح کی دوبارہ آمد ف 1: اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ حضرت مسیح قریب قیامت میں تشریف لائیں گے ۔ اور ان کی یہ تشریف آوری قیامت کی شروط میں سے ہے ۔ اس لئے تم لوگ اس میں مطلقاً شک نہ کرو ۔ یہی صراط مستقیم ہے ۔ اور یاد رکھو ۔ کہ شیطان عقل وخرد تم کو اس عقیدے سے باز رکھنے کی کوشش کریگا اور کہے گا ۔ کہ یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ حضرت مسیح دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں ۔ اور قیامت کے علائم میں سے ہوں تمہیں یہ سمجھنا چاہیے ۔ کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس کی باتیں محض تمہیں گمراہ کرنے کے لئے ہیں اس لئے ان پر اعتماد نہ کرو *۔ یہ واضح رہے کہ جن لوگوں کی نظریں اس وقت یورپ والوں پر ہیں ۔ اور یہ محسوس کررہے ہیں ۔ کہ اس وقت امین عالم کے لئے انکا وجود زبردشت خطرہ ہے اور یہی لوگ ہیں جو مادیت سے مسلح ہوکر مذہب کے قلعوں پر حملہ آور ہیں ۔ اور آج ان کی وجہ سے روحانیت کے تمام نظرئیے پامال ہورہے ہیں ۔ ان کے نزدیک ضرورت ہے ، حضرت مسیح کی جو دنیا میں آکر اپنی است کے ان لوگوں کو بتلائیں ۔ کہ حرص وآز کی تکمیل اور جسم وقالب کی آرئش وتزئین ہی منتہائے کمال نہیں ۔ وہ آئین اور تمدن کے اس ہلاکت آفرین پہلو کو بکقلم بدل دیں ۔ اور یورپ کو روحانیت سے معمور کردیں ۔ آج یہ سفید فام قومیں گمراہی میں اتنی دور نکل گئی ہیں ۔ کہ ان کو پھر سے واپس لانا عام انسانوں کے بس میں نہیں ہے حالات کا تقاضا اور زمانے کے داعیات یہ ہیں ۔ کہ کوئی زبردست روحانی شخصیت مبعوث ہو اور وہ دنیا میں ایک زبردست انقلاب پیدا کردے ۔ جس کی وجہ سے انسانیت اپنی کھوئی ہوئی سعادتوں کو دوبارہ حاصل کرلے *۔