وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ
اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم (خوشی سے) چیخنے لگی ہے۔
ف 2: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جب قرآن کی آیتوں میں حضرت مسیح کا ذکر کیا ۔ تو مکہ والے یہ سمجھے کہ شاید ان کا مطلب یہ ہے کہ مسیح کی طرح ان کی بھی پوجا ہو ۔ اس خیال سے انہوں نے کہا ۔ کہ ہمارے معبود تو بہرحال محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بہتر ہیں ۔ کیوں نہ ان کی پرستش کی جائے اس کے جواب میں فرمایا تمہیں محض غلط فہمی ہوئی ہے ۔ اور یہ محض دھوکا ہے ۔ ہمارے نزدیک تو مسیح ہمارے بندے تھے ۔ جن کو ہم نے نبوت کے انعام سے نوازا تھا ۔ اور بنی اسرائیل کے لئے مقتدا قرار دیا جاتا تھا ۔ اور اس مقام عبودیت کی تشریح وتوضیح کے لئے انکار مذکور ہوا تھا ۔ یہ مقصد نہ تھا کہ تم خواہ مخواہ اس کو غلط معنے پہنچاؤ*۔ حل لغات :۔ اسورۃ ۔ سونے کے کنگن ۔ یہ امارت وتمول کی نشانی تھی * انتقمنا ۔ ہم نے سزا دی ۔ مقام سے ہے جس کے معنے عربی میں ہیں * یصدون ۔ اظہار مسرت کرنے لگے ۔ چلانے لگے *۔