سورة الزخرف - آیت 41

فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُم مُّنتَقِمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پس اگر ہم تجھے یہاں سے لے جائیں (١) تو بھی ہم ان سے بدلہ لینے والے ہیں (٢)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

یہ بہرے اور اندھے ہیں ف 1: یعنی ہرچند ان لوگوں کو اسلام کے معارف وحقائق سے آگاہ کیا گیا ہے مگر یہ ہیں کہ ان میں پذیرائی اور قبولیت کی قطعاً استعداد موجود نہیں ہے ۔ یہ کانوں کے بہرے ہیں ۔ کلمہ حق کو سننا ہی نہیں چاہتے ۔ آنکھوں سے اندھے ہیں ۔ مظاہر صدق وصفا اور خوارق ومعجزات کو دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں ۔ اس صورت میں اور گمراہی کی اس منزل میں آپ کا سمجھانا بالکل بےکار اور خبث ہے ۔ جب قومیں اس درجہ پست اور ذلیل ہوجائیں ۔ کہ سچائی کو قبول کرنا ان کے لئے موجب تنگ ہو ۔ تو پھر بہترین سزا قدرت کی طرف سے یہ ہوتی ہے ۔ کہ ان کو مٹا دیا جائے ۔ چنانچہ ان لوگوں کو اللہ کی شدید ترین سزا کے لئے ہر لحظہ تیار رہنا چاہیے ۔ اور جاننا چاہیے ۔ کہ اب وقت آگیا ہے ۔ کہ یہ ذلت ورسوائی سے دو چار ہوں ۔ یہ لوگ اس دنیا میں تمہارے سامنے بھی محسوس کریں گے ۔ کہ ہم سے اللہ تعالیٰ ناراض ہیں ۔ اور آپ کے بعد آخرت میں بھی محسوس کریں گے ۔ کہ ہم عذاب الیم میں گرفتار ہیں ۔ آپ بہرحال نہایت استقلال اور عزمیت کے ساتھ اللہ کے احکام کو پہنچاتے رہیے ۔ اور یہ یقین رکھیئے ۔ کہ اللہ کی جانب سے آپ صراط مستقیم پر گامزن ہیں ۔ ان لوگوں کی قسمت میں اگر یہ نہیں ہے ۔ کہ یہ اس نورہدایت سے اکتساب کریں ۔ تو قوم میں اور بہت سی بعیدوں میں ہیں ۔ جو اس کو تسلیم کرلینے کے لئے بےقرار ہیں *۔ غرض یہ ہے کہ جب آدمی خدائے رحمن سے تعلقات عبودیت کو منقطع کرلیتا ہے ۔ تو پھر خود بخود شیطان کے چنگل میں پھنس جاتا ہے ۔ اور اپنی زندگی کو برباد کرلیتا ہے ۔ اس کے دل پر غفلت اور تساہل کے پڑے پڑجاتے ہیں ۔ اور روحانی احساسات یکقلم مردہ ہوجاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے ۔ کہ پھر نیکی کی باتوں سے اس کے دل میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور برائی مرغوب ہوجاتی ہے * الصم ۔ اسم کی جمع ہے ۔ بمعنے بہرے * عمی اعمی کی جمع ہے ۔ یعنی اندھے *۔ حل لغات :۔ قرین ۔ ساتھی ۔ ہمنشین *۔