ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ
یہی وہ ہے جس کی بشارت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دے رہا ہے جو ایمان لائے اور (سنت کے مطابق) نیک عمل کئے تو کہہ دیجئے! کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر محبت رشتہ داری کی جو شخص کوئی نیکی کرے ہم اس کے لئے اس کی نیکی میں اور نیکی بڑھا دیں گے (١) بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا (اور) بہت قدردان ہے (٢)۔
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقرباء کی محبت ف 1: اہل بیت سے محبت اور عقیدت رکھنا بلاریب جزو ایمان ہے ۔ اور کون بد بخت ہے جو اس سعادت سے محروم رہنا پسند کریگا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقارب سے تعلقات ارادت اس بات کی علامت ہے ۔ کہ دلوں میں تقویٰ اور پاکیزگی موجود ہے ۔ اور حب پیغمبر کا جذبہ موجزن ہے ۔ اور درحقیقت یہ عشق نبوی کا لازمی نتیجہ ہے ۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت ہوگی ۔ تو پھر آپ کے اقرباء سے محبت نہ رکھنا کوئی معنے ہی نہیں رکھتا ۔ یہ ایسا پاک جذبہ ہے کہ امام شافعی (رح) باوجود تستن کے اس بات پر فخر وناز کرتے ہیں ۔ کہ ؎ ان کنان دلان حبا ال محمد فلیشھد اسقلان انی رافضی کہ اگر آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت رکھنا رفض ہے تو کونین اس پر گواہ ہیں ۔ کہ میں راقضی ہوں مگر اس کے معنے یہ نہیں ہیں کہ اس آیت میں اسی محبت کی طرف اشارہ ہو ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ایسا مطالبہ نہیں کرتے ۔ جس کا تعلق اساس دین سے ہو ۔ اقارب کی عزت واحترام تقاضائے ایمان ضرور ہے *۔ باقی صفحہ حل لغات :۔ ردضت ۔ روفعہ کی جمع ہے ۔ بمعنے باغ * جنت ۔ کے معنے مقامات عیش ومسرت ہونگے ۔ حب میں داخل نہیں ہے کیونکہ حضور سے اپنے اقارب کی محبت رکھنا کوئی تبلیغ کا صلہ نہیں ہے ۔ جس کا حضور مطالبہ کرتے ہیں بلکہ ایک امرزائد ہے ۔ استثقاء اس قبیل سے ہے ۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ۔ ولا عیب فھم یحران میر قھم ۔ مگر نفس دین سے اس کا تعلق نہیں ہے دین نام ہے صرف اللہ کا اطاعت اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا ۔ یہ دو آخذ ہیں ۔ اسلام کے سارے نظام حیات کے اور ان کے علاوہ تمام پاک شخصیتیں اپنی جگہ پر قابل کریم ہیں ۔ مگر دین نہیں ہیں ۔ اسلام صرف حقائق کا نام ہے ۔ صداقتوں سے تعبیر ہے ۔ شخصیتوں کو اس میں داخل نہیں ہے ۔ پھر اگر آیت کے یہی معنے ہوں ۔ جو عام طور پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ تو اس میں شبہ یہ پیدا ہوتا ہے ۔ کہ معاذ اللہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سارا کھڑاک ہی اس لئے کھڑا کیا تھا ۔ ککہ بعد میں ان کے اقربا اور اعزۃ ان کی فتوحات اداوت سے فائدہ اٹھائیں ۔ حالانکہ واقعہ ایسا نہیں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ سرے انبیاء کی طرح اپنی تبلیغی مساعی پر بغیر اس کے کچھ اجر نہیں چاہتے ۔ کہ لوگ ان کی پاک کوششوں کو بار آور بنائیں ۔ اور اسلام کو قبول کریں ۔ بس الا المود یوفی الغربیٰ کے معنے ہی ہیں کہ میں جو کچھ جانتا ہوں یہ ہے کہ تم لوگ مجھے اپنے عزیز اور قریبی سمجھو اور مجھ سے وہی سلوک روا رکھو جو اقربا سے روا رکھا جاتا ہے ۔ مجھے اپنا دشمن قرار نہ دو ۔ اپنا ہمدرد سمجھو اور میری باتوں پر اعتماد کرو *۔