تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِن فَوْقِهِنَّ ۚ وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَن فِي الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
قریب ہے آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں (١) اور تمام فرشتے اپنے رب کی پاکی تعریف کے ساتھ بیان کر رہے ہیں اور زمین والوں کے لئے استغفار کر رہے ہیں (٢) خوب سمجھ رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی معاف فرمانے والا ہے (٣)
خدا کا جلال وجبروت (ف 2) آیت کے دو معنی ہی ۔ ایک تو یہ کہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے جلال وجبروت کا تعلق ہے آسمان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے ۔ اگر اس کی زبردست قدرت اس کو نہ مقام رکھے تو اس ہیبت اور رعب کا تقاضا یہ ہے کہ یہ سارا نظام علوے زمین پر آرہے ۔ دوسرے یہ کہ مشرکین مکہ مشرک کا ارتکاب کرکے خدا کی جناب میں سخت گستاخی کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ قریب ہے کہ اجرام سماوی اس کو برداشت نہ کریں اور ان پر گرپڑیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور کرم ہے کہ اس نے ہر شخص کو اس کے اعمال میں آزادی دے رکھی ہے ۔ اور وہ مجبور نہیں کرتا کہ ہر شخص اس کے آستانے جلال وقدس پر ہی جھکے ۔ البتہ فطرت اور عقل کا مطالبہ یہی ہے کہ انسان اپنے ذاتی شرف کو محسوس کرے اور صرف اللہ کے سامنے تذلل وعبودیت کا اظہار کرے اور کائنات میں اپنے آپ کو سب سے افضل واعلیٰ قراردے۔ ارشاد فرمایا کہ انسان اللہ تعالیٰ کو کما حقہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ حالانکہ اس کی پاکیزہ ترین مخلوق یعنی فرشتے ہر وقت اس کی تسبیح وتقدیش میں مصروف رہتے ہیں ان کی زندگی کا نصب العین ہی یہ ہے کہ وہ ہمہ اطاعت بنے رہیں ۔ اور اسکے حکموں کی قطعاً مخالفت نہ کریں ۔ پھر ان میں یہ خوبی بھی ہے کہ یہ انسان کے لئے بخشش طلب کرتے رہتے ہیں ۔ اور خطیرۃ القدس سے انوار پھیلاتے رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان باوجود اپنے بےشمار گناہوں کے عذاب الٰہی سے محفوظ ہے۔