سورة آل عمران - آیت 135

وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہوجائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں (١) فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) ان آیات میں مسلمان کے نصب العین کو واضح کیا ہے کہ وہ مجسمہ اطاعت ہوتا ہے ، اس کا ہر ارادہ اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماتحت ہوتا ہے ، اور وہ دنیا کی دلفریبیوں پر نہیں ریجھتا ، وہ جنت ومغفرت سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوتا ، مغفرت کے معنی مختلف آئے ہیں ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں اس سے مراد اسلام ہے ، حضرت علی (رض) کا ارشاد ہے کہ اس سے مقصود ادائے فرائض ہے ، حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں ، پانچ نمازیں ہیں ، سعید بن جبیر (رض) کہتے ہیں ، تکبیر اعلی سے تعبیر ہے ۔ مگر لفظ کی وسعتیں کسی تخصیص کی متحمل نہیں ، ان اقوال میں بھی تضاد نہیں ، ان بزرگوں نے اپنے اپنے مذاق کے مطابق جس طرز عمل کو زیادہ اچھا سمجھا ، مغفرت کا اولین مصداق قرار دیا ، مقصود بہرحال یہ ہے کہ مسلمان کی نگاہیں بہت بلند ہیں ، وہ مقام رضا ومغفرت کو لپک لپک کر اور دوڑ دوڑ کر حاصل کرنا چاہتا ہے ، (آیت) ” عرضہا السموت “۔ سے مراد وسعت وکشادگی کی تشریح ہے ، ” بلاد عریضہ “۔ بڑے بڑے ملکوں کو کہتے ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ زمین وآسمان کی بلندیاں اور پہنائیاں جنت کی وسعت بےپایاں کا ایک حصہ ہیں ، بعض لوگوں نے ” عرض “ کے بھی کہئے ہیں ، مگر عربیت کے لحاظ سے کچھ زیادہ جچتے نہیں ۔