لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ
جس کے پاس باطل پھٹک نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے، یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے (١)
قرآن عزیز ف 1: مکے والوں کی یہ انتہائی بدبختی اور محرومی تھی ۔ کہ وہ اس قرآن عزیز سے استفادہ نہ کرسکے ۔ ورنہ نفس کتاب کی خوبیاں اور درجہ نمایاں ہیں ۔ کہ ان میں قطعاً شاب وشبہ کی گنجائش نہیں ۔ عربی میں عزیز کے دو معنے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ یہ اپنے انداز بیان کے لحاظ سے عدیم النظیر ہے ۔ دنیا کی کوئی کتاب فصاحت اور بلاغت میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ اسے دلائل کا وہ استحکام حاصل ہے جس کی وجہ سے تمام مذہبی اور اپنی صحیفوں پر غالب اور مفتخر ہے ۔ اس میں کوئی بات ایسی نہیں جس کے لئے دلیل نہ ہو ۔ اور عقل ودانش کے قرین نہ ہو ۔ دوسرا وصف یہ ہے کہ اس میں تحریف وتبدیلی کسی عنوان بھی راہ نہیں پاسکتی ۔ اور کسی وقت بھی یہ نہیں ہوسکتا ۔ کہ اس میں باطل کی آمیزش ہوجائے ۔ چنانچہ یہ حیرت انگیز بات ہے ۔ کہ چودہ سو سال ہوگئے ہیں ۔ مسلمانوں پر زوال بھی آیا ۔ فتنوں اور آزمائش کا طوفان بھی امڈا ۔ مجوسیت اور عجمیت نے اسلامی لٹریچر میں بڑی حد تک دخل اندازی بھی کی ۔ مگر قرآن جوں کا توں ہے ۔ اور آج بھی اس درجہ مستنداد معتبر ہے ۔ جس درجہ قرآن اولیٰ میں تھا ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ لوگوں کو اس کی تعلیمات میں کلام ہو ۔ اور زندگی کے پیش کردہ مسائل میں اس کے ساتھ اتفاق نہ کرسکیں ۔ مگر بڑے سے بڑا دشمن بھی بشرطیکہ وہ اسلام کے متعلق کچھ بھی معلومات رکھتا ہو ۔ اس اعتراف پر مجبور ہے کہ یہ قرآن آج اسی طرح مسلمانوں میں موجود ہے ۔ جس طرح کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دیا تھا اور اس میں ایک شوشہ اور کسی اعراب کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے ۔ حالانکہ جتنے مذہبی صحیفے اس وقت موجود ہیں ان میں سے کسی کے متعلق فطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے . بائبل کی تعریف تو تقریباً اہل علم کے حلقوں میں مسلم تھی ۔ اب ویدوں کے جاننے والے اور ریسرچ کرنے والے بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ متعدد مقامات میں بعض ملاحدہ نے ان میں حسب منشاء تبدیلی پیدا کردی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حالات میں اعتماد قطعاً اٹھ جاتا ہے ۔ اور پھر ایسی کوئی کتاب لائق تاسی نہیں رہتی ۔ حل لغات :۔ من بین یدیہ ولا من خلفہ بطور تمثیل کے ہے ۔ یعنی قرآن بمنزلہ ایک ایسے محفوظ اور مستحکم قلعہ ہے جس میں افواج یا فتنہ کے لئے کوئی راستہ ہی موجود نہیں ۔ نہ آگے کی طرف اور نہ پیچھے کی جانب سے * اعجمی ۔ غیر عربی ۔