إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ
(واقعی) جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے (١) اور پھر اسی پر قائم رہے (٢) ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں (٤) کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (٣) (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو (٥)۔
فرشتے اتریں گے ف 2: اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ ایک طرف تو یہ لوگ جہنم میں دکھ اور تکلیف برداشت کررہے ہونگے ۔ جہوں نے دنیا میں اللہ کے پیغام کو ٹھکرایا ۔ دوسری جانب جنہوں نے رب العالمین کے ساتھ تعلقات عبودیت کو استوار کیا اور پھر ان تعلقات کی ذمہ داریوں کو مردانہ وار استقلال اور عزیمت کے ساتھ آخر تک نبھایا ۔ وہ فرشتوں کی زبان سے خوشخبریاں سن رہے ہونگے ۔ کہ اس وقت تم قطعاً غم اور فکر سے بےنیاز ہوجاؤ۔ دلوں کو مسرت سے معمور کرلو ۔ کہ تمہارے لئے جنت کی نعمتیں اور آسودگیوں مقدر ہیں ۔ جن کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ ہم نے دنیا میں تمہاری اعانت کی ۔ آج آخرت میں بھی تمہارے رفیق اور دوست ہیں ۔ یہاں جنت میں رزق اور قوت کی کمی نہیں ۔ جو چاہوگے ملے گا ۔ اور جس چیز کی خواہش کا اظہار کروگے ۔ وہی دی جائے گی ۔ اور تم یوں رہوں گے جس طرح مہمان عزت واحترام کے ساتھ رہتا ہے یہ واضح رہے کہ تنزل علیھم الملائکۃ سے مقصود یہ ہے ۔ کہ مقام حشر میں جب کہ لوگ گھبرا رہے ہونگے اور ان کو معلوم نہیں ہگا ۔ کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔ تو اس وقت فرشتے تسکین قلوب کے لئے اتریں گے اور ان کو خوشخبری سنائیں گے ۔ جنہوں نے عزیمت واستقامت کو اختیار کیا ہے جیسا کہ سیاق وسباق سے ظاہر ہے اس کا تعلق دنیوی زندگی سے نہیں ہے ۔ اور اگر اس کا تعلق سباق کے واقعات سے نہ ہو ۔ اور اس کے عموم کو بہر آئینہ باقی رکھا جائے ۔ تو پھر فرشتوں کے نزول سے مراد ان مومنوں کے دلوں میں اطمینان پیدا کرتا ہے ۔ یہ مقصد نہیں کہ فرشتے باقاعدہ نزول وحی کی غرض سے آئیں گے ۔ کیونکہ اس قسم کا نزول وحی کی غرض سے آئیں گے کیونکہ اس کا نزول ہمیشہ کے لئے بندہوچکا ہے ۔ جناب رسالت مآب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اب کوئی اس کا استحقاق نہیں رکھتا ۔ کہ ملائکہ پیغام الٰہی لے کر اس کے پاس آئیں ۔ حل لغات :۔ استقاموا ۔ یعنی راہ ہدیات کے سلسلے میں تمام مصیبتوں کو برداشت کیا * تنزل ۔ اترتے ہیں *۔