وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ
اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیئے (١) اور اس میں برکت رکھ دی (٢) اور اس میں (رہنے والوں) کی غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کردی (٣) (صرف) چار دن میں (٤) ضرورت مندوں کے لئے یکساں طور پر (٥)۔
سلسلہ تکوین ف 1: تکوین کائنات کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا ہے ۔ کہ زمین کو دو مدید وقفوں میں پیدا کیا ہے ۔ اور پھر اس میں پہاڑوں کو استوار کیا ہے ۔ اور ضروری برکات پھیلائی ہیں ۔ اور غذاؤں کا سامان مہیا کیا ہے ۔ اور یہ سب کچھ چار وقفوں میں قرار پایا ۔ پھر آسمان کی جانب توجہ مبذول کی ۔ اور ان کو کئی بلندیوں میں تقسیم فرمایا ۔ اور یہ بھی دو قرنوں میں ہوا مگر یہ دو قرن پہلے دو قرنوں میں داخل ہوا ۔ اس کے بعد سطح دنیا کو بوقلمون چراغوں سے آراستہ فرمایا ۔ اور ان میں حفاظت کے لئے پورا پورا انتظام کردیا ۔ کہ شیطانی قوتیں ملا واعلیٰ کے اسرار نہ معلوم کرلیں ۔ فرمایا کہ ساری کائنات میں دیکھو تمہیں معلوم ہوگا ۔ کہ ایک علم ہے ۔ جو اس کے پس پردہ کار فرما ہے ۔ اور زبردست قوت وغلبہ ہے ۔ جس کی حکومت واقتدار ہے پھر ان حالات میں بھی تم اللہ کی طرف رجوع کرنے کے لئے تیار ہو یا نہیں ؟ *۔ یاد رہے ۔ کہ کائنات کیونکر منصہ شہود پر آئی ہے ۔ یہ ایک مختف فیہ مسئلہ ہے ۔ ارباب عقل نے مختلف نظرئیے پیش کئے ہیں ۔ جن میں کوئی قطعی نہیں ۔ کیونکہ اس ضمن میں جتنی بحثیں ہوں گی ۔ وہ محض قیاس پر مبنی ہونگی ۔ اس میں منطق اور تجربہ کو بالکل دخل نہیں ۔ اور کوئی ایسی سعی شہادت موجود نہیں ہے ۔ جس کی بنا پر یقین کے ساتھ کچھ کہا جاسکے ۔ اس لئے اس باب میں کوئی ضرورت نہیں ۔ کہ قرآن اس قسم کی معلومات کا ساتھ دے ۔ البتہ جب یہ معلومات قرآن کے مطابق ہوجائیں گی ۔ اس وقت ہم سمجھیں گے ۔ کہ نظر اور استدلال میں کوئی تقاوت پیدا نہیں ہوا ۔ اور حضرت انسان نے پیدائش اور تخلیق کا صحیح صحیح سرا غ لگالیا *۔ حل لغات :۔ یومین ۔ یہاں مراد بارہ گھنٹے کا دن نہیں ہے ۔ بلکہ دو مدید وقفے ہیں جن میں زمین کو پیدا کیا گیا ۔ جیسا کہ قرآن کے دیگر استعمالات سے پتہ چلتا ہے ۔ اس طرح اربعۃ ایام سے مقصود چار قرن ہیں *۔ لسالعین ۔ مکے والے یہود اور نصاریٰ سے پوچھ کر اس قسم کے سوالات کرتے تھے ۔ تاکہ بجز نبوت کی گہرائی کا اندازہ کریں ۔ اس لئے ان کی تسکین خاطر کے لئے مسئلہ تحقیق پر روشنی ڈالی گئی *۔ استویٰ۔ قرار پذیر ہوا ۔ توجہ فرماہوا ۔ تفصیل کئی مقامات پر گزرچکی ہے ۔ مختصراً یوں سمجھ لیجئے ۔ کہ مراد ایک نوع کی توجہ خاص سے ہے *۔ دخان ۔ یعنی ابتدا میں صرف ایک دھواں سا تھا موجودہ تحقیقات کا نظریہ بھی یہی ہے اور سائنس کی اصطلاع میں اس کیفیت کو نیکوں کے ہیں *۔