سورة غافر - آیت 78

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یقیناً ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے (واقعات) ہم آپ کو بیان کرچکے ہیں اور ان میں سے بعض کے (قصے) تو ہم نے آپ کو بیان ہی نہیں کئے (١) اور کسی رسول کا یہ (مقدور) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے (٢) پھر جس وقت اللہ کا حکم آئے گا (٣) حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا (٤) اور اس جگہ اہل باطن خسارے میں رہ جائیں گے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بعض انبیاء کا ذکر قرآن میں نہیں ہے ف 1: چونکہ قرآن عربوں میں نازل ہوا ۔ اور عربی زبان میں نازل ہوا اس لئے ضروری تھا ۔ کہ اس میں انہیں انبیاء کا تذکرہ ہو جن سے ان کے گوش آشنا ہوں ۔ اور جن کے متعلق انہیں کچھ بےوقوف ہو اس لئے جمیعا قرآن حکیم نے اس التزام کو قائم رکھا ہے ۔ گو کہ اس نے اس نظریہ کو بڑے زور کے ساتھ اشاعت کی ۔ کہ مذہب کس مرزویوم کے ساتھ مختص نہیں اور کائنات میں ہر جگہ اللہ کے پیغمبر آئے ۔ پھر بھی ان سے شامی انبیاء کا زیادہ تر ذکر کیا ہے ۔ کہ یہودی اور عیسائی انہیں پاکبازوں کے حالات سے واقف تھے ۔ اور ان کے لئے انہیں حضرات کا اسوہ پاک قابل تقلید ومتبع قرار دیا جاسکتا تھا *۔ اس آیت میں اس غلط فہمی کو رفع فرمایا ہے ۔ کہ مبادا کوئی شخص اس طرح یہ نہ سمجھ لے کہ جن انبیاء کو قرآن نے بیان ہے بس وہی عہدہ نبوت پر فائز تھے ۔ بلکہ انبیاء کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ ہر قوم میں حالات اور مقامات کے مطابق اللہ نے اپنے رسولوں کو بھیجا ہے ۔ اور انہوں نے ہر زبان میں اللہ کے پیغام کو پہنچایا ہے ۔ ہاں مصالح کے موافق ہم نے بعض کا ذکر کیا ہے اور بعض کو چھوڑ دیا ہے *۔